نفرت انگیزطوفان بدتمیزی کے جھکڑ کوکسی آزادی کا نام دے دیا گیا ، جو جتنا اونچا بول سکتا ہے منہ بھر کر گالی دے سکتا ہے وہ اتنا ہی جرات مند اور بہادرہے اور جو صبح کہے او ر شام کو الٹ کر جائے وہ حکمت قرار دے دی گئی ہے ۔ کردار، اخلاق ، شائستگی گھر کے پیچھے کہیں اسٹور میں رکھا ٹوٹا پھوٹا بے وقعت سامان بن چکا ہے ، سیاست میں اتنی گراوٹ کیا پہلے کبھی تھی ؟آپ کی تو خبر نہیں میرا جواب صاف انکار میں ہے ، صحافت میں پچیس برس گزار چکا ہوں۔ ان پچیس برسوں میں بہت کچھ دیکھا لیکن اس سطح کی سیاست دیکھی نہ ایسے ہلکے لیڈروں سے کبھی واسطہ پڑا، مانا کہ ہمارے ملک میں سیاست پہلے کون سی نیک نام تھی لیکن سیاست دانوں کے لچھنوں اور تیزابی بیان بازیوں نے اسکی بچی کچھی ساکھ بھی نالی میں بہا دی ۔ سیاست دانوں کے ہاتھ مخالفین کے گریبانوں پرآچکے ہیں۔ تیوڑیاں چڑھی ہوئی ہیں ، منہ سے کف بہہ رہا ہے اور آنکھوں میں خون ہے ۔کہنے کو تو یہ کہتے ہیں کہ سیاست میں بات چیت کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے لیکن درحقیقت یہ مخالفین کے لئے لعن طعن کے دروازوں کی بات کر رہے ہوتے ہیں ، صورتحال کو اس نہج پر کس نے پہنچایا اس پر کوئی کوئی بھی رائے قائم کر سکتا ہے لیکن نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان بھی کہہ اٹھے کہ قبرایک اور بندے دو ہیں کسی ایک کو تو قبر میں جانا ہی ہے ۔۔۔اور کون چاہے گا وہ مٹی اوڑھ کر سو رہے۔ رانا ثناء اللہ خان نوے کی دہائی سے سیاست میں ہیں۔ انہیں کبھی ہاتھ نچا کر اور منہ ٹیڑھا کرکے بات کرتے نہیں دیکھا ۔کاش وہ ایسا بیان دے کر جلتی پر تیل نہ ڈالتے۔ ان کا یہ کہنا کہ عمران رہے گا یا ہم اور یہ دھمکی دینا کہ ہمارے وجود کی نفی کی گئی تو ہرحد تک جائیں گے ،کسی مہذب شخص کو زیب نہیں دیتا ۔ رانا صاحب وکالت کی ڈگری رکھتے ہیں وہ وکیل نہیں لیکن لفظوں کے استعمال سے بخوبی واقف ہیں۔ پھر ان کی تیوریاں کیوں چڑھ گئیں !دوسری جانب مریم نواز صاحبہ کی تیزابی تقاریر اور پھبتیاں ،اللہ اللہ،پتہ نہیں انہیں کس نے کہہ دیا ہے کہ پھولن دیوی کے انداز میں ڈرانے سے مخالفین چارپائی تلے جاچھپیں گے اور میدان صاف ہوگا،پھر وزیر تعلیم رانا تنویر صاحب کا حالیہ دنوں میں قومی اسمبلی میں کیا گیاخطاب !کیا لگ رہا تھا کہ یہ گفتگو ملک کے سب سے مقتدر ادارے میں ہورہی ہے اوریہ قانون سازوں کی مجلس ہے ؟ راناثناء اللہ کا بیان ہی سیاسی پارہ بلند کرچکا تھا کہ دوسرے رانا نے زمین بھی گرم کردی۔ جورہی سہی کسرتھی وہ پی ٹی آئی کے چوہدری فواد حسین صاحب نے پوری کردی۔ فواد صاحب پہلے ہی منہ میں گندھک کا تیزاب لئے رہتے ہیں کہ جہاں کوئی مخالف دکھائی دے وہ اس پر پچکاری مار دیں۔ انہوں نے صحافیوں سے بات چیت میں رانا تنویر صاحب کے بیان کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر منہ بھر کر گالی ہی دے دی ۔ گالم گلوچ ، دھمکیوںتڑیوں ،لعنتوںملامتوں اوررقیق الزامات نے بڑھا ہواسیاسی درجہ ء حرارت مزید بڑھا دیا ہے۔ ان لیڈروں نے ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچا کہ ان کا انداز سیاست سیاسی کارکنوں میں کیا رنگ لا رہا ہے اورنفرت کا یہ سیاسی دھندہ قوم کو متشدد بنا رہا ہے ۔قوم بری طرح سے تقسیم ہوچکی ہے، رشتے تعلق دوستیاں ختم ہو رہی ہیں، دشمنیاں پھل پھول رہی ہیں۔ برادرم یاسر چوہدر ی کینیا میں ہوتے ہیں ۔اسی موضوع پر بات ہورہی تھی ۔بتانے لگے کہ ایک اچھے بھلے دیندار خاندان نے اپنی بیٹی کا نکاح صرف اس بات پر ختم کروادیا کہ دولہا مخالف پارٹی کے نظریات کا حامل تھا اور لڑکے کے بھائی ’’زمان پارک ‘‘ والے تھے ، لڑکی کی ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی انہوں نے رشتہ ختم کرکے لڑکے والوں کو باہر کا راستہ دکھا دیا کہ ہمارے نظریات نہیں ملتے ،یہ پھر بھی غنیمت ہے کہ رشتہ ہی ختم ہوالوگ تو زندگیوں کا خاتمہ کرنے لگے ہیں ۔چند ماہ پہلے ہی سوات موٹر وے پر مسافر بردار گاڑی میں یہی نفرت اور عدم برداشت رحیم الدین نامی نوجوان کی جان لے چکی ہے ،بس چل رہی تھی کہ سیاست پر بات چل پڑی اور پھر رکی تورحیم الدین کی جان جاچکی تھی ۔اس کا بھائی وقاص لہو میں لت پت پڑا تھا ۔جن مسافروں سے بحث ہورہی تھی انہوں نے فون کرکے گاؤں سے دوستوں رشتہ داروں کو بلالیا ، پہلے تو کاٹلنگ انٹرچینج پر گاڑی رکواکر دونوں سیاسی مخالفین پر تشدد کیا گیا ،پھر گولیاں مار کر بات ہی ختم کردی گئی اور یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے ۔ افسوس کہ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ملک معاشی میدان میں گھٹنوں کے بل رینگ رہا ہے ۔ہماری ساکھ یہ رہ گئی ہے کہ چند ارب ڈالر کے قرض کے لئے آئی ایم ایف کی ہر بات بلاچوں و چرا مان رہے ہیں اوروہ ایک کے بعد ایک شرط سامنے رکھ رہا ہے ۔قرض نہیں دے رہا ۔ہمارا حال یہ ہے کہ مٹی کے تیل کی قیمت بھی اپنی مرضی سے نہیں رکھ سکتے ،ہم دنیا میں بھیک منگا مشہور ہوچکے ہیں ،امن و امان کی صورتحال بدستور تشویش ناک ہے کوئی دن نہیں جاتا کہ بلوچستان یا کے پی کے میں سکیورٹی فورسزکے جوان شہید نہ ہوتے ہوں۔ایسے میں یہ آستینیں چڑھا کر منہ سے جھاگ نکالنا کس مسئلے کا حل ہے ؟ یا ہم کوئی ’’سانحہ ‘‘ تو نہیں پال رہے ؟سیاست دانوں کا یہ لب و لہجہ ، یہ توتکار ، ابے تبے ایسی گرد اچھال رہی ہے کہ سامنے کچھ نظر نہیں آرہا،حد نگاہ صفر ہے، دس کلو آٹے کے لئے بھگدڑ میں مرنے والوں کی لاشیں تک نظروں سے اوجھل ہیںآگے کا سفر خاک ہوگا!جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی سنتے آرہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے لیکن آج میں حلفیہ کہہ سکتا ہوں کہ ملک واقعی نازک دور سے گزر رہاہے اور افسوس کہ اسے اس حال تک پہنچانے والوں کے دل ابھی تک ٹھنڈے نہیں ہوئے !