جنوبی پنجاب میں قیام ہنگامہ خیز رہا، رمضان پیکج اور فری آٹا ڈسٹری بیوشن سنٹرزکے ساتھ، حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کی درگاہ پر سات کروڑ کی لاگت سے عظیم کمپلیکس کے تعمیراتی و ترقیاتی امور اور کام کے معیار اور رفتار کا بھی جائزہ ہوا۔رمضان پیکج اور ریلیف سرگرمیوں کے سلسلے میں ضلع راجن پور کے اس سہ روزہ قیام کا نقطہ کمال درگاہ ِ فریدؒ پر حاضری اور جمعتہ المبارک کے عظیم اجتماع میں شرکت تھی، جس میں ضلعی انتظامیہ کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر محمد اکبر اور اوقاف ایڈ منسٹریشن کے ذمہ داران کے علاوہ حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کے خانوادے کی معتبر شخصیات بھی جلوہ آراہوئیں جن کے سرخیل خواجہ عامر فرید کوریجہ نے تہنیتی اور استقبالیہ جملے کہے، درگاہ کے تعمیراتی کاموں کی تحسین اور حکومت کے رمضان ریلیف پیکج کو سراہا۔ درگاہ ِ عالیہ جنوبی خطّے کا سب سے بڑا دینی اور روحانی مرکز ہے، راقم نے اپنی گفتگو میں اْس درگا ہی نظام اور خانقاہی روایت کے احیا پر زور دیا، جو عام آدمی کے لیے ریلیف اور سکون کا سب سے بڑا مرکز اور مسکن تھا۔ بلا شبہ روٹی انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے، یہ رو ٹی کسی تعارف اور تفریق کے بغیر جس طرح اِن آستانوں پر بٹتی اور بہ سہولت دستیاب ہوتی تھی اور اِس کی دنیا میں کہیں کوئی مثال نہیں۔ اس روٹی اور لنگر میں کبھی کوئی دھکم پیل نہیں ہوئی اور نہ ہی بھگدڑ سے کبھی کسی کو کوئی نقصان ہوا۔ اسی لنگر اور صوفیاء کے دسترخوان سے برصغیر کا سب سے بڑا سماجی انقلاب رونما ہوا، جس کے بانی سیّدہجویرؒ اور خواجہ اجمیرؒ تھے۔ دریں اثنا چیئرمین نیشنل مشائخ کونسل خواجہ غلام قطب الدین فریدی نے بھی اپنی درگاہ ِ معلی گڑھی شریف میں اپنے والدِ گرامی خواجہ غلام نازک کریم کے نام سے " ایوانِ نازک" کی بِنا ڈالنے کا اہتمام کرلیا۔ خواجہ صاحب انقلابی شخصیت ہیں۔ تصوف کی ترویج و تشہیر اور خانقاہوں کو جدید خطوط سے آشنا و استوارکرنے میں ممتاز اور معتبر مقام کے حامل ہیں۔ ضلع خانپور میں اِن کی درگاہ حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے دبستان کا سب سے بڑا مرکزہے، جو حضرت خواجہ محمد یار فریدی کے روحانی فیضان سے مشکبار ہے۔ " ایوان ِ نازک" میں تقریبا ً سات سو نشستوں سے آراستہ " الفرید آڈیٹوریم" اور اس کے ساتھ چالیس کمرے جن میں نصف زائرین کی سرائے و رہائش اور نصف طالب علمو ں کے قیام اور کلاس رومز کے استعمال میں آئیں گے اور خانقاہ کا یہی تشخص اور تصور ہے۔ مولانا روم نے لکھا تھا کہ ساری انسانیت ایک دوسرے کیساتھ اسی طرح وابستہ اور نتھی ہے،جسطرح جسمانی اعضائ، انسانی جسم کیساتھ۔۔۔کہ انکا"جوہر" ایک ہے،شیخ سعدی نے بھی اسی فکر کو آگے بڑھایا کہ انسانیت کے باہم مربوط ہونے کا "بنیادی وصف" حضرت آدمؑ کی نسبت سے ایک ہی ہے، نبی اکرمﷺ نے فرمایا:اَلخَلقْ عَیَالْ اللہ یعنی مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔گزشتہ ہفتے وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر لاہور کے کیتھڈرل چرچ میں بھی جانے کا موقع ملا ان کے بشپ ندیم کامران اور پادری عمران سموئیل نے پیشوائی کی ، میں نے دیکھا کہ سارے مذہب کے پیرواپنی بے بسی اور بے کسی کا معاملہ اس کائنات کے پالنہار کے آگے پیش کرتے ہوئے، اْسی سے، اْس کے فضل و کرم اور لطف وعطا کی بھیک طلب کر رہے ہیں۔ یقینا اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ مشکل حالات میں اللہ تعالیٰ سے استغفار اور اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر ، اس کے آگے اپنی ندامت بھری جبیں جھْکانا اور پھر اس کے ساتھ، اْسکی رضا اور خوشنودی کے لیے ، غموں اور دْکھوں سے بِلکتی ہوئی مجبور اور بے بس انسانیت کے ساتھ ایسا محبت آمیز اور شفقت بھرا سلوک کرنا،جس سے ان کے دْکھ اور غم کم ہوسکیں… وقت کا اہم ترین تفاضہ ہے۔ہمارے دین نے اس حوالے سے زکوٰۃ اور صدقات کی صورت میں ایک ایسا موثر نظام دیا ہے جس کے تحت سماجی تحفظات کو یقینی بنایا گیا ہے۔ معیشت کی استواری اور معاشی احتیاج سے انسانی معاشرے کو محفوظ رکھنا،انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔اگر اسکا اہتمام نہ ہو تو سوسائٹی میں اضطراب اور بے چینی پیدا ہوجاتی ہے۔ اسلام نے تقسیم دولت اور کسبِ معاش کے واضح اصول متعین فرمائے تاکہ بے جا مسابقت کی وجہ سے باہمی نفرت پیدا نہ ہو، اس سلسلے میں بنیادی اور اساسی پہلو "حقِ محنت" کا اعتراف ہے ، جس کے لیے سورہ النجم کی آیت39میں فرمادیا گیا کہ’’انسان کے لیے وہی کچھ ہے، جس کے لیے اس نے محنت کی ہے‘‘۔اسلام نے معاشی تگ ودو میں’’حلّت‘‘ کی شرط کو بنیادی اہمیت عطا کی۔ کہ اس امر کا اہتمام ہو کہ تمہارے پیٹ میں جانے والا لقمہ حلال رزق سے عبادات ہو ،یقینا ایک تو وہ پاک اور حلال طریقے سے کمایا گیا ہو اور دوسرا اپنی شکم پروری کے لیے جس کھانے کا اہتمام ہو،وہ بھی پاکیزہ اور طیب ہو ،گزشتہ بحران جو" کرونا" کی صورت میں ہم پر ناز ل ہوا ، اس کی اصل بھی حرام اور ناجائز غذائوں کا استعمال تھا، چنانچہ کورونا کا اوّلین شکار ہونے والے ملک چین نے ، اس وبا پر قابو پانے کے فوراًبعد اپنی غذا/ خوراک اور کھانے پینے کی اشیاء کا ازسرِنو جائزہ لیکر ، الہامی مذاہب نے جن جانوروں کو حرام قراردیا ہے اْن کے گوشت پر پابندی عائد کردی ہے۔ چنانچہ سانپ،چوہے،چمگادڑ،بندر، چھپکلی، کھچوے اور ریچھ کا گوشت بند کرکے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سبزیاں،دالیں اور حلال غذائوں کی ترغیب دی جارہی ہے۔ معاشی کفالت کے لیے اسلام کا نظام زکوٰۃ اور اِنفاق فی سبیل اللہ کے احکام ایک فلاحی معاشرے کی تشکیل میں اساسی اور کلیدی وجود رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ وصول کیجیے ان کے مالوں سے صدقہ تاکہ آپ پاک کریں انہیں اور بابرکت فرمائیںانہیں اس ذریعے سے۔(التوبہ103)۔ ارکانِ اسلام میں زکوٰۃ کا حکم۸ہجری کے بعد آیا ، جبکہ مکہ مکرمہ فتح ہوچکا اور مملکت اسلامیہ مسلسل غزوات کے اضطراب سے قدرے محفوظ ہوگئی، یہ موقعہ تھا کہ دنیا کو فلاحی ریاست کے ابدی ضابطوں سے روشنا س کروادیا جائے۔ چنانچہ اسکے اصو ل و ضع کر کے۔یہ پیغام دیدیا گیا کہ ان اصولوں کی پاسداری ہی سے دنیا میں معاشرتی عظمت اور آخرت میں دائمی نجات اور سرخروئی میسر آئے گی،اور ان اصولوں سے انحراف کرنیوالوں کیلئے وعید اور تباہی و بر بادی ہے۔ قرآن پاک کی سورہ توبہ کی آیت ۴۳ میں حکم ہے۔اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرتے رہتے ہیں اور اسے اللہ تعالی کے راستے میں خرچ نہیں کرتے تو ان کو درد ناک عذاب کی بشارت دے دیں۔ یہ عذاب یوں ہوگا کہ وہی سونا ، چاندی گرم کر کے ان صاحبانِ مال کے ماتھوں، پہلوں اور پشتوں پر لگایا جائیگا اور کارکنانِ قدرت ان کو اس سزا سے گزارتے وقت کہیں گے’’یہ ہے جو تم نے جوڑ رکھا تھا اس لیے، بس اپنے جوڑے ہوئے کا ذائقہ چکھو‘‘۔ قرآن مجید کی ان واضح اور دو ٹوک تعلیمات اور نبی ﷺ کے واضح اور روشن احکام کا اثر ہے، مسلمانوں نے زکوٰ?، صدقات کی ادائیگی کو ہمیشہ مقدم رکھا اور اس فریضے کی ادائیگی سے کبھی بھی اعراض نہ برتا ، سوسائٹی جب ان اصولوں کی تعمیل میں آگے بڑھی تو اس پر رحمتوں کا نزول ہوا۔نبی ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد ، بعض قبائل نے یہ خیال کی کہ زکوٰۃتو ایک خراج تھا، جو نبی کریمﷺ کو ادا کیا جاتاتھا، آپ ﷺ کے بعد ، اب اس کی ادائیگی ضروری نہیں، منکرین زکوٰۃ کی اس باغیانہ روش کا خلفیہ وقت نے سخت نوٹس لیا، حضرت ابوبکرؓ کی مومنانہ بصیرت اور اسلام سے مضبوط وابستگی نے اس نازک مرحلے پر ایسا جرات مندانہ اور فیصلہ کن کردار ادا کیا کہ اس فرض کی ادائیگی میں قیامت تک کیلئے ابہام اور جھول ختم کردیا۔ آپؓ نے فرمایا ’’ اللہ کی قسم!اگر یہ لوگ مجھ سے اونٹ باندھنے والی ایک رسی ، جو رسول اللہ ﷺ کو ادا کیا کرتے تھے ، بھی روکیں گے ، تو میں ان سے جنگ کر ونگا‘‘۔