ملک میں پیدا ہونے والے شدید سیاسی بحران کی وجہ سے ہماری معیشت تقریبا دیوالیہ ہوچکی ہے ضد، ہٹ دھرمی اور انا نے گویا ہمیں اندھا کردیا ہے۔ حقائق نظر آرہے ہیں اور نہ ہی کچھ سنائی دے رہا ہے ،ہر کوئی اداروں سے اپنی بات منوانے پر اصرار کررہا ہے اگر بات اس طرح ہوگی پھر مانی جائے گی ورنہ دمادم مست قلندر ہوگا ۔ عوام کو ریلیف دینے کے دعویٰدار موت کے سوداگر بن کر گھر گھر موت بانٹ رہے ہیں کیونکہ ان کا اس ملک میں کچھ بھی دائو پر نہیں لگا ہوا ۔ہر کوئی اس سفینہ میں چھید کئے جارہا ہے۔ ڈوبتی نائو کی کسی کو فکر ہے اور نہ ہی اسے تباہی کا اندازہ ہو رہا ہے، ستم بالائے ستم دیکھئے عوام پھر بھی ان موت کے سوداگروں کو اپنا خیر خواہ سمجھ رہے ہیں اور ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے سر دھڑ کی بازی لگانے کیلئے تیار، ان کی محبت میں دیوانے اور مجنوں ہوئے جارہے ہیں : کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا یہ بات ہر پاکستانی کی سمجھ سے بالا تر ہے کہ ہماری امپورٹ بڑھ بھی نہیں رہی پھر بھی ڈالر مارکیٹ میں ناپید کیوں ہے اوراس کی اونچی اڑان کو روکا نہیں جا رہا، روپے کی بے قدری میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کے طوفان بلکہ سونامی نے بے یارو مدد گار عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے ، رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں عزت مآب مائیں، بہنیں، بیٹیاں 10کلوآٹے کے تھیلے کے حصول کیلئے لمبی لمبی قطار وں میں دن بھر کھڑی ہوکر اور پولیس کے مغلضات سن کر شام کو خالی ہاتھ ہی گھر واپس لوٹ آتی ہیں،کیا بوڑھے اور کیا جوان سب اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے لمبی لمبی قطاروں میں کھلے آسمان تلے اپنی باری کا انتظار کر تے ہیںاور کئی اسی جستجو میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں لیکن اس سب کچھ کے باوجود آٹے کی تقسیم کیلئے کوئی موثر حکمت عملی بنائی جاسکی اور نہ ہی حادثات کا تدارک کیا جاسکا کیونکہ یہ عوام کا مسئلہ ہے اشرافیہ کا نہیں ۔ آج ڈالر کو لگام دینے کی بڑی بڑی ڈینگیں مارنے والے بھی بے بس ہیں اور اپنے ہتھیار پھینک چکے ہیں ۔انھوں نے ڈالر کو تباہی پھیلانے کی کھلی چھٹی دیدی ہے کیونکہ ڈالر کی اونچی اڑان سے ان کے مفادات وابستہ ہیں، آخر ملکی معیشت کیوں سنبھل نہیں رہی اور روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مستحکم کیوں نہیں ہو رہی ؟ اس صورتحال بارے میری گفتگو ایک ایسے محب وطن پاکستانی سے ہوئی جو ملکی و بین الاقوامی امور پر گہری نظر ر کھنے کے ساتھ ساتھ اکثر امریکہ سمیت دیگر ممالک میں ٹریول کرتے رہتے ہیں۔ ڈویلپمنٹ سیکٹر کے اس ماہر نے نہ صرف ملکی معیشت کی تباہی کرنے والوں کے چہرے سے پردہ چاک کیا بلکہ ملکی معیشت کو گھن کی طرح چاٹنے والوں کے بارے میںبھی کھل کر بات کی ۔ان کی باتیں سن کر میں حیران بھی ہوا اور پریشان بھی ۔ ہماری یہ گفتگو مارگلہ کے دامن میں ایک خوشگوار موسم میں ہوئی لیکن ہماری اشرافیہ باریتلخ حقائق جاننے کے بعد دل سوزوگداز میں ڈوب گیا۔ آنکھیں نم تھیں اوریہ حقیقت جان کر حیرت ہوئی کہ ہمارے موجودہ معاشی بحران کے ذمہ دار کوئی اور نہیں ہماری اشرافیہ ہے۔ میرے اصرار پر اس محب وطن پاکستانی نے ایک لمبی آہ بھری اور پھر کچھ دیر بعد اپنی سانس بحال کرتے ہوئے بتایا سب سے پہلے آپ یہ حقیقت جان لیں کہ پاکستانی اشرافیہ اس ملک سے فرار کا مکمل پلان تیار کر چکی ہے ۔کسی بھی بیورو کریٹ کا ڈیٹا چیک کرلیں آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمارے بیشتر بیورو کریٹس کے خاندان کسی دوسرے ترقی یافتہ ملک کی نیشنیلٹی حاصل کر چکے ہیں۔ بعض کی فیملی وہاں سیٹل بھی ہو چکی ہیں ۔اب اشرافیہ پاکستان میں صرف اور صرف اس کے دیوالیہ ہونے کے اعلان کا انتظار کر رہی ہے۔ ملک کی تعمیر و ترقی اور عوام سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔اس حقیقت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ تینماہ قبل کراچی میں ایک ڈپٹی کمشنر کے گھر سے10کروڑ امریکی ڈالر اور 500تولہ سونا برآمد ہوا تھا پاکستانی کرنسی اور دیگر اشیا اس کے علاوہ تھیں اس وقت ملک میں ڈپٹی کمشنرز لیول کے کتنے بیوروکریٹس کام کر رہے ہیں جن کی تنخواہ صرف دو لاکھ ہے لیکن ان کے خفیہ اثاثوں کا کوئی اندازہ نہیں ، محب وطن پاکستانی نے کہا کہ چند روز قبل مجھے ایک بیورو کریٹ کا ٹیلی فون آیا ۔اس نے استفسار کیا کہ آپ ڈالر کہاں سے ایکسچینج کراتے ہیں میں نے انہیں بتادیا جس کے جواب میں بیورو کریٹ نے کہا کہ سر آپ آئندہ ہمارے اس دوست سے ڈالر ایکسچینج کرا ئیں گے۔ یہ آپ کو مارکیٹ سے بہتر ایکسچینج ریٹ بھی دیگا اور آپ کے بہت سارے '' کام'' بھی آئے گا ، اگلے روز میں ان صاحب کے پاس ڈالر ایکسچینج کرانے گیا انھوں نے واقعی مجھے مارکیٹ سے بہتر ریٹ دیا اور کوئی ڈاکومینٹیشن بھی نہیں کی، میں حیران تھا کہ آج ڈالر کا ریٹ275روپے ہے اور ان صاحب نے ڈالر295روپے کے حساب سے خریدا ہے، آخر چکر کیا ہے ؟ اس بارے معلومات حاصل کیں، حقائق جاننے کے بعد میرے چودہ طبق روشن ہوگئے یہ بلیک مارکیٹ کا ایک خفیہ نیٹ ورک ہے جو ملک سے بلیک میں ڈالرز خریدنے کے بعد اسے ہماری اشرافیہ کو فروخت کر رہا ہے ۔اشرافیہ ان ڈالرز کو مسلسل جمع کر رہی ہے یا پھر انہیں حوالہ یا ہنڈی کے ذریعہ ملک سے باہر منتقل کر رہی ہے تاکہ ملک سے فرار ہونے کی صورت میں انہیںکسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے، متعدد منی چینجرز اشرافیہ کے نمائندہ کے طور پر کام کررہے ہیں ۔اگر کوئی میرے جیسا بندہ بیوروکریٹ کی ایڈوائس پر عمل نہیں کرتا اس کی فائل روک دی جاتی ،اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ اپنی غیر ملکی کرنسی صرف ان ہی منی چینجر سے ایکسچینج کرائے ۔ کس کو اس نیٹ ورک بارے معلوم نہیں لیکن اسے کوئی روک رہا ہے اور نہ ہی سدباب کے لئے کچھ کیا جارہا ہے۔ ہماری ملکی معیشت کے معمار ہی تخریب کار بن چکے ہیں ،یہ کہہ کر اس نے نشست برخاست کردی کہ ''پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست ''باقی باتیں اگلی نشست میں۔یہ باتیں سننے کے بعد ملاقات کا اشتیاق بڑھ گیا۔ کوشش کروں گا کہ آئندہ نشست میں کچھ اور حقائق جان سکوں، یہ ایک حقیقت ہے کہ واقعی ہم اپنی اشرافیہ کے سامنے بے بس ہیں ۔موجودہ صورتحال میں یہ بے بسی اور بڑھ چکی ہے ۔