جان ایڈمز نے کہا تھا کہ ہماری خواہشات، یا ہمارے جذبے جو بھی ہوں وہ حقائق اور شواہد کو تبدیل نہیں کر سکتے۔کین پائروٹ نے کہا ’’ ہمارے آج کا فیصلہ ہمارا گزرا ہوا کل کرتا ہے۔ ہم جو آج کریں گے کل وہی ہمارا مقدر بننے گا‘‘۔انیس سو اناسی میں اس وقت کی سوویت یونین کی افغانستان میں دراندازی کے بعد پاکستان کے امریکہ کا اتحادی بن کر سوویت یونین کے بڑھتے قدموں کو روکنے کے فیصلہ کے نتائج پانچ دھائیوں سے پاکستان اور پاکستانی آج تک بھگت رہے ہیں۔ سوویت یونین افغانستان سے نکل کر بھی اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکا۔ امریکہ نے افغانستان پر کارپٹ بمباری آزمانے کے بعد بھی افغانستان چھوڑجانے میں ہی عافیت جانی۔ ایک پاکستان ہی ہے جو آج تک 1979ء کے فیصلے قیمت چکاتا چلا آرہا ہے۔ انیس سو اناسی میں لگ بھگ تیس لاکھ افغان پناہ گزینوں نے پاکستان میں پناہ لی۔ ان پناہ گزینوں نے بیشتر سرحد اور بلوچستان میں سکونت اختیار کی اور روزی کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ مہاجرین کی تعداد بڑھتی گئی ۔آج ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ کے قریب افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں اور کرپشن کی وجہ سے لاکھوں مہاجرین پاکستانی شناختی دستاویزات حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور یہاں مستقل جائیدادیں اور کاروبار بنا چکے ہیں۔اس ایک فیصلے کے نتیجے میں صرف افغانی ہی پاکستان نہیں آئے بلکہ غیر قانونی اسلحہ اور ہیروئن کلچر بھی آیا۔ پاکستان کو بد ترین دہشت گردی کا سامنا رہا۔ اس فیصلے کی قیمت سو ارب ڈالر کے مالی نقصان کے ساتھ 70 ہزار بے گناہ جانوں کے خون سے ادا کرنا پڑی۔ پہلے تو پاکستان دہشت گردی کی آگ میں جلا اب افغانستان سے براہ راست حملوں کا بھی سامنا کر رہا ہے۔ پاکستان کو ان افغان مہاجرین کی وجہ سے ایک بڑ نقصان کھانے پینے کی اشیاء اور ڈالرز کی بے تحاشا سمگلنگ کی صورت میں بھی ہوا۔ جس وجہ سے پاکستان میں آٹا، چینی، سبزیاں، آئل، الیکٹرانک اشیائ، سیمنٹ، گوشت اور دیگر ڈیری مصنوعات نایاب ہونے لگیں۔ نوبت معیشت کے ڈیفالٹ تک جا پہنچی۔سوال تو یہ ہے کہ پاکستان اور پاکستانیوں کے افغان بھائیوں کیلئے ان قربانیوں کو افغان عوام اور حکومت کس نگاہ سے دیکھا۔ حامد کرزئی جو اقتدار سے پہلے پاکستان کے گیت گاتے نہ تھکتے تھے صدر بن پر پاکستان کے خلاف زہر اگلنے لگے ،اشرف غنی پاکستان پر حملے کو افغانستان پر حملہ سمجھنے کا دعویٰ توکرتے رہے مگر عملاً بھارت کی گود میں جا بیٹھے۔ پاکستان چالیس سال تک طالبان کو سٹریجک اثاثہ قرار دیتا رہا۔ مگرآج طالبان عبوری حکومت کو ہم افغانستان میں براہِ راست کارروائی کی تنبیہ کر رہے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان کے حصے میں بدلے میں نہ صرف احسان فراموشی آئی بلکہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو افغان سرزمین پر رہنے کی اجازت دے کر پاکستان پر حملوں کے لئے راہ بھی ہموار کی گئی چترال میں فوجی چیک پوسٹوں پر حملہ ہو یا طورخم بارڈر پر پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں پر بلا اشتعال فائرنگ ہو افغان حکومت نے ہر جگہ پاکستان کے مفادات کو دانستہ نظر انداز کیا گیا۔ اب تو صرتحال یہ ہو چکی ہے کہ افغانستان بھار ت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف المر صاد نامی سوشل میڈیا پراپیگنڈامہم کا حصہ بنا ہو ا ہے اور بھارت اس کو اس سلسلہ میں بیس لاکھ افغانی کرنسی ادا کر رہا ہے۔ یہ پاکستان کے ایثار اور قربانیوں کو مسلسل نظر انداز کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ پاکستان نے یکم اکتوبر سے پاکستان میںتمام غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا ہے ظاہر ہے ان میں سب سے زیادہ تعداد افغانیوں کی ہی ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے اپنے مفاد میں فیصلہ کرنے کا اخلاقی اور قانونی حق ہے مگرافغان حکومت اور شہریوں کے علاوہ اب عالمی برادری کی طرف سے بھی پاکستان کو فیصلہ پر نظر ثانی کرنے کے دبائو کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان غیر قانونی افغان باشندوں کی بے دخلی کے بجائے ان کی رجسٹریشن کے لیے جامع میکانزم بنائے۔یو این پناہ گزین ایجنسی کے ترجمان کا خیال ہے کہ افغان باشندوں کی واپسی کے سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، اور ان کی جانوں کو خطرات ہوسکتے ہیں۔ یو این ایجنسی کے علاوہ افغانستان کی صورتحال پر 8 ممالک اور یورپی یونین کا بھی مشترکہ بیان سامنے آیا ہے کہ غیر دستاویزی افغانوں کے لیے رجسٹریشن کا نظام تیار کیا جائے، تحفظ کے طلبگار افغانوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔اس کے علاوہ امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان افغان پناہ گزینوں کیلئے اپنی ذمہ داری پوری کرے اور افغانستان کے پڑوسی ممالک تحفظ کے خواہاں افغانوں کو داخلے کی اجازت دیں۔ عالمی برادری پاکستان کے آج کے فیصلے کو تبدیل کروانے کے لئے یک زبان تو ہیں مگر اپنے کل کے کردار کو بھول رہے ہیں ۔ چند سال قبل اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے بھی افغان پناہ گزینوں کی امداد بند کر کے مہاجرین کا بوجھ پاکستان کے سر تھونپ دیا تھا ۔ یہی امریکہ تھا جس نے افغانستان سے نکلتے وقت دانستہ طور پر افغانستان میں پاکستان کے دشمنوں کو پناہ اور عسکری معاونت فراہم کی۔آج پاکستان اپنے مفاد میں فیصلہ کرنے جا رہا ہے تو یہ اس کا قانونی اور اخلاقی حق ہے۔عالمی برادری کے تقاضے لازمی نہیں کہ پاکستان کے مفادات سے بھی میل کھاتے ہوں۔ پاکستان کو غیر قانونی افراد کی ملک بدری کا فیصلہ کرتے وقت پاکستان اور افغانستان کے تعلقات اور ماضی کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔ ماضی میں پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات میں پیدا ہونے والی دراڑوں میں وقت کے ساتھ ساتھ خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ کئی عشرے بیت چکے ہیں، پْلوں کے نیچے سے دہائیوں کا پانی بہہ چکا ہے لیکن یہ دونوں ممالک ابھی بھی ماضی میں ہی کھڑے ہیں، ان دونوں ممالک کے مسائل اور بدگمانیاں ویسی ہی برقرار ہیں، جیسے انیس سو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں تھیں۔پاکستان آج جو فیصلہ کرے گا اس کا بوجھ نئی نسلیں کو اٹھانا پڑے گا۔ اس لئے اقوام متحدہ نہ امریکہ بلکہ پاکستان کے مفاد میں فیصلہ کیا جائے۔