مکرمی ! کشمیر زبان میں ایک کہاوت ہے۔’’ژرہ چُھہ کنِڈلخجہ پیٹھی سوکھ‘‘۔ یعنی چڑیا کو خادراد شاخ پر ہی سکون حاصل ہوتا ہے۔ کشمیری شاعری کے پہلے تین دور صوفیانہ اور رومانی شاعری کے لیے مشہور ہے۔ لیکن جو دور محمود گامی سے شروع ہوا اس میں بغض ایسے گیت بھی تخلیق ہوئے جن میں آزادی کی جدو جہدپر زور دیا گیا اور اہل ِکشمیر کو ترغیب دِی گئی کہ وہ میدانِ عمل میں آئیں اور وطن دشمنوں کے ناپاک ارادوں کوخاک میں ملا دیں۔ محمود گامی نے اس گیت میں کشمیر سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا ہے اور کئی قابلِ دید اور صحت افزامقامات کی خوبیاں بیان کی ہیں اور اپنے وطن کے ساتھ وفاداری کا عہد کیا ہے۔رسول میر ایک غزل گو شاعر ہے‘لیکن اس کے کلام میں بھی وطن سے محبت کے گیت ہیں جن میں بڑا سوز اور درد پایا جاتا ہے۔مہجور نے اپنے اس گیت میں گلشن ِ کشمیر باغبانوں سے اپیل کی ہے کہ انہیں اپنے پیارے وطن کو آزاد کرانے کے لئے خود میدان ِ عمل میں آجانا چاہیے اور اپنی مشکلوں کو حل کرنے کے لئے خود کوشش کرنی چاہیے۔آزاد کا یہ گیت جس میں وطن سے محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواہے نغمہ نہیں ایک نوحہ بھی ہے جس میں کشمیر کی بربادی پر آنسو بہائے گئے ہیں اور ساتھ ہی یہ توقع بھی کی گئی ہے کہ محبِ وطن کشمیری ایک دِن ظلم وستم کا خاتمہ کردیں گے۔ غلامی کی گھنگور گھٹائیں چھٹ جائیں گی اور آزادی کا سورج طلوع ہو کر رہے گا۔ (عابد ضمیر ہاشمی‘آزاد کشمیر)