وہی دہشت و وحشت کی دہائیوں پرانی کہانی ، آہیں کراہیں اور کبھی ختم نہ ہونے والے اشک ۔۔۔وقت ،مقام ،کردار بدل گئے لیکن کہانی وہی تھی ، نمازیوں سے بھری مسجد ،صفوں میں کاندھے سے کاندھا ملائے نمازی ،نظریں جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے تھے کہ دھماکا ہوا اور جو رب کے حضور کھڑے تھے وہ رب کے حضور پیش ہوگئے ،پولیس لائنزپشاور کی مسجدمیں دھماکے کے بعد دھواں چھٹا تو وہی منظر تھا ،مسجد کے فرش پر کٹے پھٹے انسانی اعضاء بکھرے اور دیواروں پر گوشت کے لوتھڑے چپکے ہوئے تھے، دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں زندگیاں موت کی تاریکیوں میںگم ہوچکی تھیں ،کوئی دکھ سا دکھ ہے برف کی سل سی کلیجے پر آپڑی ہے۔ ان سطور کی تحریر تک شہداء کی تعداد101اور زخمیوں کی 200ہوچکی ہے۔ پشاور پولیس لائنز میں بپا ہونے والی قیامت کے لئے زباں و بیاں کے دریافت ذرائع کافی نہیں اگر انساں کچھ نیا کھوج بھی لے تو اس کے اظہار کے لئے وہ زباںکہاں سے لائے۔ دکھ اس شدت کا ہے کہ سارے الفاظ خامشی کے سرد سمندر میں اتر جاتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ قیامت قائم ہو کر رہے گی لیکن پھر یہ ہمارے لئے قسط وار قیامتیں کیوں !پاکستان کے سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) کے مطابق صرف ایک برس 2022 کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے 506 واقعات ریکارڈ ہوئے ہیں اور ان میں سے 309 خیبر پختونخوا میں ہوئے ۔اس ادارے کے مطابق خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں 108 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا،بدنصیب خیبر پختونخوا کے بعد دہشت گردی سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ بلوچستان رہا، جہاں دہشت گردی کے 110 واقعات رونما ہوئے، سندھ میں 54 اور پنجاب میں 25 واقعات رونما ہوئے ۔ملک کا کوئی علاقہ ان دہشت گردوں سے محفوظ نہ رہ سکا حتیٰ کہ دارالحکومت اسلام آباد میں بھی دہشت گردوں نے آٹھ کارروائیاں کیں۔ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا اوریہ ایسا نہیں تھا کہ کسی نے ناب گھما ئی اور چولہے کی دھیمی آنچ یک دم تیز کر دی ڈیورنڈ لائن کے پار قیادت کی تبدیلی سے ان عناصر نے تقویت لینی تھی، ہمیں اس صورتحال کے لئے تیار رہنا چاہئے تھا لیکن ہماری تیاری صفر رہی یہ کوئی راکٹ سائنس تونہیں کہ ہمیں ایک اور ایک گیارہ کا پتہ نہ ہو۔ 2020 ء کے بعد سے دہشت گردوں کے مختلف دھڑوں کا انضمام شروع ہوا یا پاکستان کو کمزور دیکھنے کی خواہش مند قوتوں نے انہیں قریب کیا، گزشتہ دو برسوں میں 22 سے زیادہ دہشت گرددھڑ ے ایک چھتری تلے جمع ہوئے جس سے ان کی آپریشنل طاقت بھی بڑھی اور وہ پہلے سے زیادہ مہلک ہوگئے۔ سرحد پار محفوظ پناہ گاہیں رکھنے والے دہشت گرد گروپوں کے اس گٹھ جوڑ سے پاکستان میں بھی ان گروپوں کو تقویت ملی اس حوالے سے امن و امان کی صورت حال مانیٹر کرنے والے بعض ماہرین کہتے ہیں کہ عسکریت پسند تنظیموں اوران کے مختلف دھڑوں نے ’’سیزفائر‘‘ اور پاکستان سے ہونے والے مذاکرات سے فائدہ اٹھایا۔ سابق حکومت انہیں قومی دھارے میں لانے اور اسلحہ پھینکنے کے لئے بات چیت کرتی رہی اوریہ اپنی پناہ گاہیں محفوظ اور اپنی قوت بڑھاتے رہے ۔ان ناقدین کے مطابق دہشت گرد گروپوں کے اتحاد نے جہاں ان کی ہلاکت خیزی میں اضافہ کیا وہیں ان کی عمر بھی بڑھائی۔ ہمارا انٹیلی جنس نیٹ ورک ان گروپوں کے انضمام اور ایک امیر کی اطاعت پر مجتمع ہونے کی خبریں مسلسل دے رہا تھا اورہم ان حساس معلومات سے آنے والے دنوں کی ہلاکت خیزی کا اندازہ لگانے سے قاصر رہے۔ سامنے کی بات ہے کہ ہم ادراک کیوں نہ کرسکے کہ دہشت گرد گروپ جتنے زیادہ متحد ہوں گے وہ اتنے ہی مہلک بھی ہوں گے! 2020 کے بعد سے خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقے کہنے کو تو حکومت کے انتظام میں لے لئے گئے لیکن سچ یہی ہے کہ ان علاقوں کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک جاری رہا،ترقیاتی کاموں کی بات رہنے دیں۔ کے پی کے حکومت نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے سنجیدگی نہیں دکھائی وہ یہاں دہشت گردی کاجھاڑ جھنکار تلف کرنے کے لئے کوئی انتظام کرتی ،کوئی پیش بندی کرتی لیکن یہاں بھی ہدف سیاسی مخالفین ہی رہے۔ اسے کیا کہا جائے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بنائے گئے محکمے سی ٹی ڈی پولیس کے پاس سازوسامان کی خریداری کا مختص بجٹ صفر رہا یعنی سی ٹی ڈی کی مشکیں کس کر دہشت گردوں کے سامنے ڈال دیا گیا۔یہ محکمہ اپنے بجٹ کا چار فیصد سے بھی کم آپریشن پر خرچ کرتا ہے۔ دہشت گردوں کا پہلا ہدف ہونے کے باوجوداس فورس کا بجٹ پنجاب سی ٹی ڈی کے بجٹ 4.7 ارب روپے کے نصف کے برابریعنی محض2.18 ارب روپے ہے جس میں تنخواہیں اور الاؤنسز بھی شامل ہیں۔اس ساری صورتحال میںسی ٹی ڈی کی گنجی کیا نہاتی اورکیانچوڑتی! میرے سامنے تھنک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ آف کانفلیکٹس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی 2022کے حوالے سے مرتب کردہ رپورٹ ہے جس کے مطابق پاکستان میں 2022 ء کے دوران گزشتہ پانچ برسوں میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات ہوئے 2021 کے مقابلے میں 22ء میں دہشت گردی کے واقعات میں 28 فیصد اضافہ ہوا ۔ 2022 میں یہاں پندرہ خودکش حملے ہوئے جبکہ 2021 میںیہ تعداد چار تھی ۔یہ 2018 کے بعد ایک سال میں خودکش حملوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے 2022 ء میں دہشت گردی کے ان واقعات میں اموات اور زخمیوں کی تعداد میں بالترتیب 37 فیصد اور 35 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ان حملوں میں 533 افراد ہلاک اور 832 زخمی ہوئے،رپورٹ بتاتی ہے کہ2017 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب ملک کو 300 سے زیادہ عسکریت پسندوں کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا،ملک پہلے ہی معاشی طور پر اوندھے منہ پڑا ہوا ہے۔ اس پر امن و امان کی بگڑتی صورتحال مرے پر سو درے کے مترادف ہے۔ اس وقت سچ میں معاملہ ہماری بقاء کا ہے کیا اب بھی ہم اسے ٹھنڈے پیٹوں پی سکتے ہیں !