تحریک انصاف کے ان لوگوں کی تعداد بارہ تک جا پہنچی ہے جن پر مقدمات درج ہوئے ، گرفتار کیا گیا، کچھ پر دوران حراست تشدد کیا گیا۔یہ سب لوگ نئی شکل میں ڈھلتی جمہوری جدوجہد کے ہیرو ہیں۔شاہد خاقان عباسی،مصطفے نواز کھوکھر اور مفتاح اسماعیل جو کچھ کہہ رہے ہیں اس سے ان کا مثبت رخ ابھر رہا ہے ،ان کی شناخت کے ساتھ ماضی میں جو عوام مخالف رنگ چمٹے ہوئے تھے وہ اتر رہے ہیں ۔دوسری طرف وہ جنہوں نے جنرل ضیا اور پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف مزاحمت سے اپنا قد اونچا کیا تھا ، ایک دم بالشتئے سے نظر آنے لگے ہیں۔ان کی شخصیت میں موجود خوبیاں اب نظر میں نہیں ٹھہرتیں۔ان کی گفتگو میں اب سیاسی دانشمندی کی جگہ اقتدار کی خاطر جائز ناجائز اقدامات کا دفاع جھلکتا ہے۔بت پاش پاش ہو رہے ہیں اور عوام کا رد عمل دفن کی گئی سچائیوں کو زمین سے نکال رہا ہے۔ تاریخ واقعات کا سٹیج ہے۔ ہم طے کرتے ہیں کہ خود کو ہیرو بنانا ہے یا ہمیشہ کے لئے ولن بن جانا ہے۔ شیطان ولنوں کا جد امجد ہے۔اس کا دعویٰ رد کر کے ہمیشہ کے لئے اسے ولن بنا دیا گیا۔ہم اس بات پر قدرت رکھتے ہیں کہ ہیرو بنیں یا ولن۔سردست تاریخ بتا رہی ہے کہ پاکستان کے عوام مظلوم ہیں‘ کوئی ہے جو ان پر ظلم کر رہا ہے۔ میں نے ان ملکوں کی ترقی کو سمجھنے کی کوشش کی ہے جو آج ہمارے سامنے فخر سے کھڑے ہیں۔وہاں کی صنعتیں چل رہی ہیں۔ وہاں کے کھیت سونا اگل رہے ہیں‘ وہاں کے باغات پھلوں سے لدے ہوئے ہیں ‘ وہاں کی نہریں اور جھیلیں صاف ہیں‘ وہاں بچے ریاست کی ذمہ داری ہیں۔وہاں پولیس خود بخود کسی مظلوم کی مددگار بن جاتی ہے‘ وہاں کا سیاستدان غیر اخلاقی حرکت ،کرپشن یا جھوٹ پر اپنا کیرئر تباہ کر بیٹھتا ہے۔ وہاں کی عدالتیں انصاف کرتی ہیں‘ اس کے سوا ان کی کوئی شناخت نہیں۔وہاں افسر شاہی کا کوئی چہرہ نہیں‘ وہ سرونٹ ہیں۔ خدمت کے کام سے چوک جائیں تو تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔پاکستان میں ایسا کچھ بھی نہیں‘افسروں کا گروہ یہاں افسر شاہی ہے ،ان کی اپنی سلطنت ہے ، یہ ریاست کا پانچواں ستون بن چکے ہیں،ان سے جوابدہی ممکن نہیں رہی ،یہ عوام کے خدمت گار نہیں ،مخدوم بن چکے ہیں، اس لئے ہم ترقی نہیں کر رہے۔ نو دس ماہ ہو گئے ہیں‘ ملک بحران در بحران، بھنور در بھنور پھنستا جا رہا ہے۔ جو لوگ اقتدار میں ہیں ان کی اکثریت کا انتظامی تجربہ بدعنوانی‘ دھوکہ دہی اور غنڈہ گردی ہے۔ایسی استعداد کے ساتھ مافیا چلائے جا سکتے ہیں،ریاستیں نہیں چلا کرتیں۔پہلی خرابی یہی ہے کہ جس سیاسی ادارے سے تجربہ حاصل کر کے لوگ حکومت کا حصہ بنتے ہیں وہاں کے اساتذہ نالاقائق اور نصاب قومی ضرورت پوری نہیں کرتا۔ کسی ایک استاد یا اس کے شاگرد کا نام لینے سے میرا ابلاغ بہتر ہو سکتا تو ضرور ایسا کرتا ،اس لئے پڑھنے والے خود ہی ان مہان شخصیات کا تصور کر لیں جو سیاسی اثاثہ کہلاتی ہیں۔ ایک تضاد ان دنوں بڑی شدت سے سامنے آیا ہے۔ لوگ پولیس کے پاس جاتے ہیں‘ اپنے اوپر ہونے والے کسی ظلم‘ زیادتی کی شکایت لے کر۔پولیس مقدمہ درج نہیں کرتی کیونکہ علاقے کا کوئی بااثر آدمی مظلوم کی سفارش نہیں کرتا۔کئی بار ایسے لوگ ان ہی طاقتوروں کے خلاف شکایت درج کرانا چاہتے ہیں۔پولیس مقدمہ درج نہیں کرتی‘ صلح صفائی کا مشورہ دیتی ہے۔عدالت سے درخواست کی جاتی ہے کہ مقدمہ درج کرنے کا حکم دے۔دوسری طرف راتوں رات حکومت مخالف افراد کے خلاف مقدمات درج ہو جاتے ہیں۔عورت‘ مرد کی تمیز نہیں‘ جس نے بے نقاب کرنے کی کوشش کی اسے گرفتار کیا جا رہا ہے۔ممکن ہے مخالفین کو خوفزدہ کر کے یا جیل میں ڈال کر کوئی وقتی فائدہ مل جائے لیکن تاریخ کے سٹیج کا کیا کریں گے۔کل کو آپ کے بچے جب کتابوں میں آپ کو بد عنوان، عوام مخالف ، غیر ملکی قوتوں کا آلہ کار اور بد زبان پڑھیں گے تو کیا وہ شرمسار نہ ہوں گے ؟ بنگلہ دیش میں ایک محل ہے‘ غدار محل‘ یہ میر جعفر کی رہائش گاہ تھا۔عالیشان عمارت کی دیواروں پر سبز کائی جمی ہوئی ہے اردگرد گھاس اور جھاڑیاں ہیں۔کوئی اس محل کی طرف آنا نہیں چاہتا۔کوئی اس میں آباد نہیں ہونا چاہتا۔اس محل کے حصے میں وہی نفرت آئی ہے جو میر جعفر کو ملی۔میر جعفر اپنے لوگوں کے خلاف گیا تو غدار کہلایا ورنہ وہ بھی دوسرے لوگوں جیسا ہی تھا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی جماعتیں اس احساس سے عاری ہو چکی ہیں کہ جمہوریت قیادت میں تبدیلی کا نام ہے۔جس طرح جمہوریت خون بہائے بنا انتقال اقتدار کا راستہ ہے اسی طرح اس میں کوئی خاندان حکمران نہیں ہوتا۔نون لیگ ہو‘ پیپلز پارٹی ہو‘ جے یو آئی ہو‘ اے این پی ہو یا اسی قبیل کی کوئی دوسری جماعت میرا خیال ہے کہ یہ کچھ خاندانوں اور طاقتور قوتوں کا گٹھ جوڑ ہے جو ان جماعتوں کی سیاست اب تک باقی ہے۔مریم نواز کہتیں ہیں لوگوں کو وراثتی سیاست سے بڑی تکلیف ہے جبکہ یہی اصل جمہوریت ہے ۔سبحان اللہ ۔ ان کے مقابلے میں ایم کیو ایم‘ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف ہیں جو مڈل کلاس اور نچلے پڑھے لکھے طبقات کی نمائندگی کرتی ہیں۔یہ جماعتیں خود کسی نہ کسی موڑ پر استعمال ہو چکی ہیں لیکن ان کا جوہر صنعت کاروں ،جاگیرداری اور مدارس کی طاقت والی جماعتوں سے مختلف ہے۔ شیخ رشید پی ڈی ایم حکومت کے تازہ شکار ہیں‘ پی ٹی آئی کی رہنما شندانہ گلزار کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے‘ فواد چودھری کو ضمانت پر رہائی ملی ہے لیکن پی ڈی ایم کے سینے میں ابھی ٹھنڈ نہیں پڑی۔فرخ حبیب پر عجیب و غریب الزامات لگا کر مقدمہ درج کیا گیا اور بھی بہت سے ہوں گے جو کانٹے بن کر کھٹک رہے ہیں۔اس نوع کی کارروائیوں سے تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتیں ہی بیزار نہیں‘ ن لیگ سے بھی لوگ نکل رہے ہیں۔ وہ اپنی شناخت تاریخ میں اچھی رکھنا چاہتے ہیں۔میرا خیال ہے سٹیج پر عنقریب انقلاب نمودار ہونے کو ہے۔