گزشتہ دنوں بچوں کے سالانہ امتحانات کے دوران انکو پڑھانے اور کچھ دیر تعلیمی مسائل پر بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ دوران گفتگو انکی کتابیں بھی دیکھیں اور اندازہ ہوا کہ ہمارے تعلیمی نظام کی خرابیاں کس حد تک نچلی سطح پر جا چکی ہیں۔ پرائمری لیول سے لے کر مڈل اور مڈل سے ہائی لیول تک جس بھی درجے کو کنگھالیں اور جانچیں، انتہائی مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لکھائی، پڑھائی اور املاء کی معمولی غلطیاں جو گزرے وقتوں میں انتہائی معیوب اورنکمے پن کی علامت سمجھی جاتی تھیں عام ہو چکی ہیں۔ زیادہ تکلیف اور حیرانگی تب ہوتی ہے جب ایسی معمولی غلطیاں اساتذہ کی جانب سے سرزد ہوں۔ خاص طور پر اردو زبان جس زبوں حالی کا شکار ہے، اسکا اندازہ سوشل میڈیا کی چند پوسٹس دیکھ کر ہی ہو جاتا ہے کہ آج کے پڑھے لکھے نوجوانوں کی اکثریت اپنی زبان کی بنیادی باتوں اور اصول و قواعد سے کتنی نابلد ہے۔ نماز کو نماض، اخلاق کو اخلاک، شکوہ کو شکوا اور زکوٰۃ کو زکات لکھنے والوں کی زبوں حالی پہ جتنا افسوس کیاجائے کم ہے لیکن اس سے بڑھ کر افسوس ان اساتذہ پر ہوتا ہے، جن سے اردو سیکھ کر بہت اعتماد سے ایسی فاش غلطیاں سر عام کی جاتی ہیں جبکہ کوئی تصحیح کرنے والا بھی نہیں ہوتا۔ ذہن سازی ، کردار سازی اور ہنر مندی تو بہت اونچی اور آگے کی باتیں ہیں کہ کون اس نہج تک پہنچ پاتا ہے۔ میں تو اس بات پہ حیران ہوں کہ وہ کون سے پیمانے ہیں اور میرٹ کا کونسا معیار ہے، جسے جانچنے کے بعد اسکول و کالجز وغیرہ میں اساتذہ کو بھرتی کیاجاتا ہے۔ نجانے وقت کی قلت ہے یا شعور کی ، ہماری قوم اچھے اور محنتی اساتذہ سے بھی محروم ہو چکی ہے۔ رہی سہی کسر سمسٹر سسٹم نے پوری کردی ہے جہاں پورا سال معیاری تعلیم و تفہیم کی بجائے محض نمبروں کی دوڑ لگی رہتی ہے، طالبعلم نمبرز کی دوڑ میں اور اساتذہ محض کریڈٹ آورز کی دوڑ میں بھاگتے رہتے ہیں اور اسی خانہ پری کے چکر میں تعلیمی معیار بد سے بدتر ہوتا چلا جارہا ہے۔ گلی محلے میں جابجا کھلے سکولوں میں محض اپنے گھر کا چولہا جلانے کی غرض سے کم سے کم تنخواہ میں پڑھانے والے اساتذہ ہوں یا بڑے بڑے مہنگے ، نامور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے اساتذہ ہوں۔ اپنے پیشے کو مقدس اور پیغمبرانہ پیشہ ماننے والوں کی تعداد اب آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں رہی۔ ایک وقت تھا اساتذہ بلا معاوضہ بھی اپنے شاگرد کو پڑھانے اور اس پر دن رات محنت کرنے سے عار محسوس نہیں کرتے تھے کہ شاید کسی بچے کی زندگی سنور جائے اور ہماری آج کی محنت کل اس ملک و قوم کو ایک روشن ستارہ عطا کردے۔ اسکے برعکس آج بھاری معاوضے لے کر بھی ہمارے تعلیمی ادارے قابل ذکر اور قابل فخر افرادی قوت فراہم کرنے میں ناکام ہیں اور بلاشبہ اس میں ہماری اپنی بدنیتی اور نالائقی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ پاکستان میں تعلیمی نظام جس زبوں حالی اور کرپشن کا شکار ہے اس پہ کیا کیا لکھوں اور کتنا لکھوں سمجھ سے باہر ہے لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اگر اب بھی ایسا ہی چلتا رہا تو آنے والے پچھتر سالوں میں ہمارا نام و نشان بھی نہ رہیگا۔ دنیا میں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو تعلیمی و علمی اعتبار سے ترقی کرتی ہیں ، محنت کرتی ہیں، اپنی نوجوان نسل کو آئندہ آنے والے چیلینجز سے نمٹنا سکھاتی ہیں، اور اسی اعتبار سے انکی تعلیم و تربیت کے ٹھوس اقدامات اٹھاتی ہیں۔ مندرجہ بالا سطور میں میں نے محض املاء کی غلطیوں کی نشاندہی کی ہے لیکن وہ بڑی بڑی فاش کوتاہیاں جنکی وجہ سے آج ہمارا پڑھا لکھا نوجوان طبقہ ڈگری ہاتھ میں لے کر بھی ناکام و ناکارہ پرزے کی مانند اس نظام پہ بوجھ ہے، تو اسکا ذمہ دار کون ہے؟ اسکا جوابدہ کون ہے؟ اسکول کا وہ استاد جو اپنی قومی زبان تک ڈھنگ سے پڑھا سکھا نہیں سکا یا کالج یونیورسٹی کا وہ استاد / پروفیسر ہے جو اعلی تعلیم، ہنر و مہارت سکھانے کے نام پہ لاکھوں کی تنخواہ تو لے رہا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلباء و طالبات میں وہ قابلیت و ہنر کہیں دکھائی نہیں دیتا جسکے وہ دعویدار ہوتے ہیں۔ راقم کی نظر میں اسکی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ اول، پرانا اور فرسودہ نصاب جو وقت اور بدلتی دنیا کے تقاضوں سے بالکل ہم آہنگ نہیں اور دوم میرٹ کی کمی، میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے جو تعلیمی نظام کھڑا کیا جائے اسکا حاصل یہی ہوتا ہے جو آج ہم جابجا دیکھ رہے ہیں۔ اساتذہ کو پڑھانا نہیں آتا ، ڈاکٹرز کو علاج کرنا نہیں آتا ، انجینئرز اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے محروم ہیں، آئی ٹی کے شعبے میں ہم کسی قابل نہیں ، جس بھی ادارے اور شعبے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ لوگوں کی اکثریت اپنی ڈگریوں سے محض پیسہ بنا رہی ہے نا کہ ایک ترقی یافتہ قوم ! اب سوال یہ ہے کہ آخر اس کا حل کیا ہے؟ ہر آنے والی حکومت تعلیمی نظام کی تبدیلی اور بہتری کے دعوے تو کرتی ہے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہوتا۔ سب سے پہلے تو بھانت بھانت کے رنگ برنگے تعلیمی اداروں میں یکساں نظام و نصاب قائم کیاجائے۔ " پرائیویٹ سکولوں کی جنت" اور " سرکاری سکولوں کی جہنم" کو فی الفور ختم کرکے "ایک دنیا" ڈکلیئر کیاجائے۔ تعلیمی ڈھانچا، نصاب، طریقہ تعلیم، تربیت و کردار سازی کے یکساں معیار مقرر کیے جائیں تاکہ ان اداروں سے فارغ التحصیل طالبعلم خود کو ایک ہی دنیا کے باسی سمجھیں۔ خود پرستی اور مادہ پرستی میں مبتلا کرنے والے ایلیٹ لیول کے تعلیمی ادارے جنکی اکثریت خود کو "منفرد" اور" کسی اور دنیا کا باسی" سمجھتی ہے، انہیں بھی ایک قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔ تعلیمی اداروں کا مقصد محض بھاری فیسوں کی وصولی نہ ہو بلکہ افرادی قوت میں قابل اور ہنرمند افراد کی بھاری اکثریت شامل کرنا ہو، جو ملک و قوم کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر سکیں۔ حکومت تمام تر وسائل فراہم کرئے اور اسکے لیے لازم ہے کہ تعلیم کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔ ہر ادارے میں چاہے سکول ہو ،کالج ہو یا یونیورسٹی میرٹ کے معیار پہ کسی صورت سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ یقین جانیں محض تعلیمی نظام میں میرٹ کے معیار کو سختی سے قائم رکھنے اور اس میں جدید تعلیمی اصلاحات شامل کرکے ان پہ عمل کرنے سے آئندہ پندرہ سے بیس سالوں میں نمایاں تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔