کیسا وقت ہے ایک رات سے دوسری رات جنم لیتی ہے ــ،ایک بحران سے نیا بحران سر اُٹھا تا ہے ۔ ایک مصیبت سے دوسری مصیبت اپنا راستہ بناتی ہے ۔اگر کہیں کوئی اُمید اُبھرتی بھی ہے تو ڈوب جاتی ہے ۔خصوصی طور پر گزشتہ تیرہ ماہ سے آئے دن اس قوم کے مصائب اور مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ گزشتہ ایک برس سے ملک معاشی بدحالی کا شکا ر ہے ۔مہنگائی کی شرح اس وقت 36.4فی صد کی تاریخی بلندیوں کو چھو رہی ہے ۔شرح سود بھی اکیس فی صد کی تاریخی حد پھلانگ چکی ہے ۔روپے کی قدر اس تیزی سے اور اتنی گرچکی ہے کہ غریب طبقہ تو ایک طرف رہا متوسط طبقے کے لئے بھی جینا دوبھر ہو چکا ہے ۔ روپے کی قدر کے گرنے سے ہمارے بیرونی قرضوں میں ہونیوالا اضافہ بھی تیرہ ہزار ارب کے قریب ہے یعنی ایک ڈالر قرض لئے بغیرہم اپنے قرض میں تیرہ ہزار ارب ڈالر سے زائد کا اضافہ کر چکے ہیں ۔مزید برآںایک طویل عرصے سے دیوالیہ ہونے کا خدشہ بھی پاکستان کے سر پر منڈلاتا آرہا ہے ایسے میں آپ کیسے ملک سے سرمایے کی ہجرت کو روک سکتے ہیں چہ جائیکہ آپ کسی کو سرمایہ کاری کی دعوت پر قائل کرنے میں کامیاب ہوسکیں ۔ رواں مالی سال میں ترسیلاتِ زر بھی 13فیصد کے قریب قریب کم ہوچکی ہیں ۔سال2022ء میں پاکستان کو 26.1 ملین ڈالرترسیلاتِ زر موصول ہوئیںجو مجموئی طور پر گزشتہ دس ماہ میں22.7 ملین ڈالررہ گئی ہیں ۔ بیروزگاری کا عالم یہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کے تخمینوں کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 7 فیصد کے قریب ہے جبکہ آئندہ برس یہ اعدادوشمار 8.50فی صد کے قریب پہنچ جائیں گے ۔یعنی مستقبل مزید مخدوش ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں محب وطن بھی وطن سے ہجرت کا سوچ رہے ہیں۔دنیا کے برعکس ،جو اپنی افرادی قوت پر فخر کرتی ہے اور انہیں سہولت فراہم کرتی ہے تاکہ قومی ترقی کے ضمن میں ان کی قابلیت سے بھرپور استفادہ کیا جاسکے ،پاکستان اس استثنا ء کی واضح مثال پیش کرتا ہے جہاںایک بڑی افرادی قوت ہونے کے باوجود ریاست اپنے لوگوں کو سہولت فراہم کرنے میںاورانہیں سودمند عوامل میں مشغول کرنے میں ناکام ہے ۔ جس کا واضح نتیجہ ملک سے قابل ذہنوں کی ہجرت میں ہونیوالا انتہائی برق رفتاراضافہ ہے۔ آئندہ مالی سال میں پاکستان کی سالانہ آمدنی کا تخمینہ صرف 0.5 فی صدتک محدودہو چکاہے جو کہ 2022ء میں 6 فی صد کے قریب تھا۔ اس وقت پاکستا ن کے زرِ مبادلہ کے ذخائر تقریباََساڑھے چار ارب ڈالر ہیںجو صرف 30دن کی ضروری درآمدات کے لیے کافی ہو سکتے ہیں ۔ مزید برآں مئی اور جون کے مہینوں میں بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کی مد میں پاکستان کو پونے چارارب ڈالرکے قریب ادا کرنے ہیں جس کے بعد قومی خزانے کی حالت کافی پریشان کن ہو گی ۔ ان ادائیگیوں کے بعد درآمدات اور مزید بیرونی ادائیگیوںکے لئے زرمبادلہ نہ ہونے کے برابر ہو گا ۔چنانچہ جون کے بعد دیوالیہ ہونے کا خدشہ صرف ایک ہی صورت میں کم ہو سکتا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ ساتھ ہم اپنے شراکت داروں اور ہمسایوں سے مزید مالی اعانت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔اس ضمن میںعالمی مالیاتی ادارے سے ہونے والے مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچتے نظر نہیں آرہے اور یہ معاہدہ جون میں ختم ہونے جا رہا ہے، اگرچہ ساڑھے چھ ارب ڈالر والے منصوبے میں دواقساط(جن کی مالیت دواعشاریہ چھ ارب ڈالربنتی ہے ) ابھی باقی ہیں ۔1.1ارب ڈالر کی ایک قسط کے لئے اس سلسلے کے نویں جائزے کے لئے نومبر سے مذاکرات ہو رہے ہیں، فروری2023ء میں ہم نے وزیرخزانہ سے سنا کہ سٹاف لیول معاہدے میں تمام امور طے پا گئے ہیں اور یہ معاہدہ آئندہ ہفتے میں ہوجائے گامگر اس بات کو بھی اب سو دن سے زیادہ گزر چکے ہیں۔ ایسی تاخیر گزشتہ 15 برسوں میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔حکومت، مختلف اقدامات، بشمول بلند شرح تبادلہ، اضافی ٹیکس اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کے باوجود آئی ایم ایف کو بیل آؤٹ پروگرام دوبارہ شروع کرنے پر راضی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ایک افواہ تو یہ تھی کہ عالمی مالیاتی ادارے نے بیرونی طور پر جس فنانسنگ کی شرط رکھی تھی ،اُس میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا ہے مگر عالمی مالیاتی ادارے کے نمائندے کی جانب سے اس بات کی تصدیق کردی گئی ہے کہ پاکستان کو جس 6 بلین ڈالر کی بیرونی فناسنگ کے انتظام کا کہا گیا تھا اسے8 بلین تک بڑھانے کا تقاضا صرف ایک افواہ ہے ۔ بحرحال پریشانی کی بات یہ ہے کہ معاہدے کا معاملہ عالمی مالیاتی ادارے کے ایگزیکٹوبورڈ کے 17مئی کوہونیوالے اجلاس کے ایجنڈے میں بھی شامل نہیںتھا۔ جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ یہ معاہدہ جلد نہیں ہونے جا رہا ۔اس سلسلے میں جو بھی مسائل ہیں اسے عوام کے سامنے بھی رکھا جانا چاہیے تا کہ بے یقینی کی گرد تو کم ازکم چھٹے۔بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ شرائط کا پورا نہ ہو پانا اس قسط کی تاخیر کا سبب ہے مگر میرے نزدیک موجودہ سیاسی عدم استحکا م ہی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔یہ سیاسی عدم استحکا م ہی ہے جس کی وجہ سے آپ ضروری فیصلے بروقت کرنے میںکامیاب نہیں ہوتے۔مزید برآں اتنے بڑے سیاسی اتحاد کے لئے کسی اتفاق رائے پر پہنچنا بھی انتہائی کٹھن عمل ہے۔ مسلسل سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ تیرہ جماعتی اتحاد کی نظام پہ انتہائی کمزور گرفت ، انتخابات سے مسلسل فرار، قومی اداروں میں ہونے والی چپقلش ، اور اس طرح کے کئی عوامل عالمی مالیاتی ادارے کے لئے اس منصوبہ کو آگے بڑھانے کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔ ایک خوشحال مستقبل کے لئے ارباب اختیار کو انتہائی سنجیدگی اور جرات سے دانشمندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔ سیاست اور معیشت کا انتہائی گہرا تعلق ہے ۔سابق وزیرِاعظم کی گرفتاری سے رہائی تک اور اسکے نتیجے میں ہونیوالے احتجاج سے بھی معیشت پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ سو سب سے پہلے ملک میںسیاسی استحکام کے لئے راہ واضح کیجئے بصورت دیگر پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی عالمی اداروں کی پیشگوئیوں کو سچ ثابت ہونے سے کوئی بھی نہیں روک پائے گا۔دوسرے ، ایک بہتر معیشت کے لئے ہمیں تمام اداروں کے تعاون سے اصلاحاتی میثاق پر اتفاق کرنا ہو گا ۔یہی وقت ہے کہ ہمیں ترجیحات اور اصلاحات کا واضح تعین کرنا ہے ، ناصرف تعین کرنا ہے بلکہ فوری اس پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانا ہے تاکہ ہم ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان کے خواب کو عملی تعبیر عطا کر سکیں ۔