تاریکی میں چراغ تو بس علم ہے اور علم جیسا کہ آئن سٹائن نے کہا تھا، محض معلومات نہیں بلکہ سچے انہماک سے پھوٹتا ہے۔ مسلم برصغیر کے افق پر فکر و نظر کے کتنے ہی ماہتاب ابھرے۔ اقبالؔ جیسا کوئی دوسرا نہ تھا۔ہندو مسلم تنازع کا حل انہوں نے تلاش اور تجویز کیا۔ درباروں میں پلی اردو زبان کا لہجہ بدل ڈالا۔ عدمِ تحفظ اور احساسِ کمتری کی ماری اپنی مفلوک الحال قوم کو بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔ آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو دیکھ آکر کوچہ ء چاکِ گریباں میں کبھی قیس تو، لیلیٰ بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تو تحریکِ خلافت کے بعد الجھی اور بجھی ہوئی قوم کے لیے رہبر کی تلاش میں اہم ترین کردار انہوں نے ادا کیا۔ اس کے باوجود کہ پنجاب مسلم لیگ کی قیادت کے سوال پررائے مختلف تھی۔ کمال جذباتی توازن کے ساتھ قائدِ اعظم سے ربط قائم رکھا۔ قیامِ پاکستان پر یقین اس قدر پختہ تھا کہ حیرت ہوتی ہے۔ مفکر کے آخری دو سال کی روداد رقم کرتے ہوئے، ڈاکٹر چغتائی نے لکھا ہے: دو باتوں پہ انہیں اصرار تھا۔ ایک‘ تمام مسلمان سیاسی مکاتبِ فکر کو مسلم لیگ میں مدغم ہو جانا چاہئیے۔ ثانیاً قوم کی قیادت محمد علی جناح کے سپرد کر دینی چاہئیے۔ 1930ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کی۔ انگریزی کا طویل خطبہ اب بھی ذہن کے در و بام روشن کر دیتاہے۔ فرمایا: میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ شمال مشرق اور شمال مغرب میں دو مسلم ریاستیں وجود میں آئیں گی۔ عجزو انکسار کے پیکر نے یہ بھی کہا: میں آپ کا رہنما نہیں لیکن میری بات اگر غور سے سنوگے تو میں تمہاری راہ منور کر دوں گا۔ میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس میرا شعلہ بار ہو گا خطبات مدراس میں امت کو درپیش ادبار کے ایک ایک پہلو پہ بات کر چکے تھے۔ مثلاً یہ کہ آزاد وطن میں پارلیمان کو اجتہاد کا اختیار حاصل ہونا چاہیے۔ اس سے پہلے قائدِ اعظم کے نام ایک خط میں کہا تھا:مسلمانوں کی قیادت کا حق اس جماعت کو حاصل ہو گا، جو روزی روٹی کا مسئلہ حل کرے گی۔ تمام تر انکسار کے باوجود شاعر کو قلق سا تھا کہ قوم ان کے پیام کا پوری طرح ادراک نہیں کر سکی۔ جنابِ رسالت مآبؐ کو مخاطب کر کے کہا: من اے میرِ اممؐ داد از تو خواہم مرا یاراں غزل خوانے شمردند اے امتوں کے سردار آپؐ سے میں فریاد کرتا ہوں کہ لوگوں نے مجھے شاعروں میں شمار کیا۔ زندگی ہی میں یومِ اقبالؔ منایا جانے لگا تھا۔ حیدر آباد دکن میں نواب بہادر یار جنگ’’درسِ اقبال‘‘ دیا کرتے مگر افسوس کہ قوم نے پوری طرح ان پر غور نہ کیا۔ وفات سے چند روز قبل وہ مشہور رباعی لکھی، آج بھی جس کو پڑھتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں تو غنی از ہر دو عالم من فقیر روزِ محشر عذر ہائے من پذیر گر حسابم را تو بینی ناگزیر در نگاہِ مصطفیؐ پنہاں بگیر اے میرے مالک و کریم دونوں عالم سے تو بے نیاز ہے اور میں ایک فقیر۔ روزِ محشر مجھے معاف کر دینا۔ لیکن حساب ہی اگر لازم ہو تو رحمۃ للعالمینؐ کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنا۔ مصرع ِ اولیٰ میں اشارہ اس آیت کی طرف ہے: ’’اللہ غنی ہے اور تم سب اس کے محتاج‘‘۔ دنیا کو الوداع کہتے ہوئے ان کے آخری اشعار میں وہ گہرائی، وہ گیرائی اور دردو سو ز ہے کہ شاعری میں اس کی مثال کم ہوگی۔ نسیمِ از حجاز آید کہ ناید سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید سرآمد روزگارِ ایں فقیرے دگر دانائے راز آید کہ ناید حجاز سے ٹھنڈی ہوا آئے گی یا نہیں ۔ بیتے عہد کی روشنی پھر سے نمودار ہوگی یانہیں۔ اس فقیر کی زندگی تمام ہوئی۔زندگی کا دوسرا رازداں آئے گا کہ نہیں۔ افتاد وہی تھی۔ لاہور سے گھر آتے ہوئے، وزیرِ آباد سے ذرا پہلے معلوم ہوا کہ راستے بند ہیں۔ راستے کب کھلیں گے؟ پھر ایک پہر اقبالؒ اور قائدِ اعظم کے ساتھ بیت گیا۔ راستہ انہوں نے بتا دیا تھا مگر پگڈنڈیوں پہ قوم بھٹکتی رہی۔ پھر غالبؔ یاد آئے۔ بے بسی ہائے تماشہ کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق بے بسی ہائے تمنا کہ دنیا ہے نہ دیں فیض احمد فیضؔ کے شعر نے دل میں پڑاؤڈالا اور ڈالے رکھا۔ یہ جامہ ء صد چاک بدل لینے میں کیا تھا مہلت ہی نہ دی فیضؔ کبھی بخیہ گری نے قائدِ اعظم کی پریس کانفرنس یاد آئی۔ ایک ہندو اخبار نویس نے سوال کیا: پاکستان میں کیا پاپائیت ہو گی؟ کم آپ ناراض ہوتے اور کم ہی آپ کی آواز بلند ہوتی۔ اس دن مگر ناراضی سے اس مفہوم کا جملہ کہا: پاپائیت کا کیا سوال، یہ ایک جدید اسلامی ریاست ہو گی۔ یہ اس آدمی کا جواب تھا، ملک بنانے سے پہلے جس نے اخبار نکالا، ایک انشورنس کمپنی کی بنیاد رکھی، کمال تیزی سے ایک ائرلائن کا بندوبست کیا، ملک تشکیل پاتے ہی فوراً سٹیٹ بینک آف پاکستان کی تشکیل کی۔ حلف بردار ی کی تقریب میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جب یہ کہا: امید ہے کہ پاکستان اکبرِ اعظم کے راستے پر چلے گا تو ترنت آپ نے جواب دیا: ہم نے جمہوریت چودہ سو سال پہلے سیکھ لی تھی۔ ماؤنٹ بیٹن کے جملے میں پوشیدہ سیکولرازم کی دعوت کو انہوں نے مسترد کر دیا۔ جمہوریت کی تائید کی اور جیسا کہ بعد ازاں سٹیٹ بینک کی تقریب میں انہوں نے کہا تھا: سوشلزم نہ سرمایہ داری، اسلام اپنا ایک معاشی نظام رکھتا ہے۔ بابائے قوم کو امید یہ تھی کہ ان کی قوم، چار عشرے جسے اقبالؔ اور انہوں نے تعلیم دی، اس بابرکت نظام کی تلاش و تحقیق اور تشکیل و تعمیر کرے گی‘ شاہراہ کی بجائے بیابانوں میں ہم بھٹکتے رہے۔ کوئی جامع منصوبہ نہ نئے نظام کی تلاش۔ وہی جاگیر داری، وہی شخصیت پرستی‘ وہی تمیزِ آقا و بندہ۔ فکر و خیال کی دنیا میں آدمی بھٹک جائے تو عملی زندگی میں بھی منزل کو وہ پا نہیں سکتا۔تاریکی میں چراغ تو بس علم ہے اور علم جیسا کہ آئن سٹائن نے کہا تھا، محض معلومات نہیں بلکہ سچے انہماک سے پھوٹتا ہے۔