کچھ دن پہلے نائنٹی ٹو نیوز لاہور بیورو کے سینئر رپورٹر میاں شاہد ندیم نے مریم نواز کے حوالے سے ایک خبر بریک کی تھی۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ مریم نواز کو عمران خان کے لانگ مارچ کی وجہ سے نواز شریف نے فورا پاکستان چھوڑکر لندن پہنچنے کی ہدایت کی تھی۔ نواز شریف کا خیال تھا کہ لانگ مارچ کے دوران مریم نواز کو پاکستان میں نہیں ہونا چاہیے۔ حیرت کے ساتھ میرے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ عمران خان کے لانگ مارچ سے مریم نواز کو کیا خطرہ ہو سکتا تھا۔اس سوال کا جواب بھی خبر کے اندر ہی کہیں چھپا ہوا تھا۔ میاں نواز شریف کا خیال تھا تحریک انصاف کے مشتعل کارکن جاتی امرا پر حملہ آور ہو سکتے ہیںجس کے باعث مریم نواز کونقصان پہنچ سکتا ہے۔یہی سوچ کر مریم نواز پاسپورٹ حاصل کرتے ہی راتوں رات لندن چلی گئیں۔ نواز شریف کا یہ خدشہ تو قرین قیاس نہیں لگتا لیکن ہو سکتا ہے نواز شریف کے ذہن میں اس سے بڑھ کر بھی خدشات موجود ہوں ۔حالات کی خرابی کی صورت میں تیسری قوت کی آمد کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ ایسے میں ہائوس اریسٹ ہوجانے سے پہلے ملک چھوڑ دینا بہتر ہوتا ہے۔ماضی کے تلخ تجربات سے انہوں نے یہی سیکھا ہے۔ حالات ساز گار ہوئے تو وطن واپسی ہو جائے گی، نہ ہوئے تو لندن میں گھر تو ہے ہی۔ مریم نواز کو منصوبے کے مطابق چھ نومبر کو واپس آنا تھا،ان کے ریٹرن ٹکٹ سے یہی معلوم ہوا تھا لیکن لگتا ہے کہ ان کے لندن میں قیام کا دورانیہ اب بڑھ جائے گا کیونکہ عمران خان کا لانگ مارچ توقع اور اندازے سے زیادہ طویل ہو گیا ہے۔ لندن میں رہ کر مریم نواز حالات کا بغور مشاہدہ کر رہی ہیں ۔ حالات کو صحیح طور پر سمجھانے کے لیے ان کے تجربہ کار والد اُن کے ساتھ موجود ہیں ۔ دو دن پہلے جب انہوں نے پریس کانفرنس کی تو میاں نواز شریف ملحقہ کمرے میں بیٹھے اپنی بیٹی کی کارکردگی کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔ پریس کانفرنس ختم ہوتے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئے اور صحافیوں سے مریم نواز کی کارکردگی سے متعلق سوال کرنے لگے ۔ پوچھنے لگے مریم نے تمام موضوعات کا کیسے احاطہ کیا اورصحافیوں کے سوالوں کو کیسے ہنڈل کیا ؟صحافیوں کی جانب سے کی جانے والی تعریف پہ وہ خوش دکھائی دیے۔ چندہفتے پہلے جب مریم نواز لندن پہنچی تھیں تو انہوں نے اپنے والد کے لیے ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا تھا ۔یہ اپنی نوعیت کی منفرد اور عجیب و غریب پریس کانفرنس تھی۔اس پریس کانفرنس میں صرف تین پسندیدہ صحافیوں کو مدعو کیا گیا تھا اور انہیں بھی اپنے ساتھ کیمرے لانے کی اجازت نہ تھی۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ اس پریس کانفرنس کوانتظامیہ نے اپنے ہی کیمروں میں ریکارڈ کیا، چوبیس گھنٹوں کے لیے اپنے پاس رکھ کے کانٹ چھانٹ کی گئی اور پھر اگلے روز چلانے کے لیے ٹی وی چینلزکو دے دی گئی۔اتنی احتیاط کے ساتھ کی گئی پریس کانفرنس میں کوئی بات خبر نہ بن سکی تھی الٹا اس طرز کی تاریخی پریس کانفرنس مذاق کا باعث بن گئی۔ اس بار مریم نواز نے تمام صحافیوں کو مدعو کر کے لائیو پریس کانفرنس تو کی لیکن وہی باتیں دہرائیں جو وہ پاکستان میں بھی کرتی رہی ہیں۔ پریس کانفرنس کا واحد موضوع عمران خان تھے۔ وہ عمران خان جن کا لانگ مارچ ناکام ہو چکا ہے۔وہی عمران خان جن کے مارچ میں صرف دو ہزار لوگ شریک ہیں ۔ وہی عمران خان جن کے جھوٹے بیانئے کی وجہ سے عوام نے انہیں مسترد کر دیا ہے۔اب وہی عمران خان مریم نواز کی طویل پریس کانفرنس کا موضوع تھے۔ بھلا ٹھکرائے ہوئے سیاستدان کو اتنی اہمیت کون دیتا ہے کہ پاکستان کے متعدد گھمبیر مسائل کو چھوڑ کے پوری پریس کانفرنس اسی کے نام کر دے۔ مارچ میں عمران خان کی حکومت ختم ہوئی، تب سے لے کر اب تک صوبائی اور قومی اسمبلی کے کُل 35 حلقوں میں ضمنی الیکشن ہو چکے ہیں۔ان35میں سے تحریک انصاف 28 نشستیں جیت چکی ہے جبکہ ن لیگ محض 5 اور پیپلز پارٹی 2 سیٹیں جیت سکی ہے۔ ایم کیو ایم نے ایک سیٹ جیتی ہے جس میں تحریک انصاف نے حصہ ہی نہ لیا تھاجبکہ اے این پی اور جے یو آئی ف ایک بھی سیٹ نہ جیت سکی ہے۔ تیرہ جماعتوں کے حکومتی اتحاد کا پھر بھی اصرار ہے کہ عوام نے تحریک انصاف کو مسترد کر دیا ہے اور عمران خان کو لوگوں کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ مریم نواز کی حالیہ پریس کانفرنس بھی تضادات سے بھرپورتھی۔ مندرجہ بالا الیکشن نتائج کے باوجود مریم نواز کا اصرار تھا کہ عوام عمران خان کو مسترد کر چکے ہیں اور انہیں عوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔عوام عمران خان کے لانگ مارچ کو مسترد کر چکے ہیں اس کے باوجود وہ لانگ مارچ کے دوران کسی نا دیدہ خوف کے باعث پاکستان سے باہر رہنا چاہتی ہیں۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ اگر عمران خان کو نہ پکڑا گیا تو جرائم پیشہ افراد کی پرورش ہوتی رہے گی۔ عمران خان حال ہی میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے نتیجے میں ڈی سیٹ ہونے کے بعد بھی کرم سے الیکشن لڑ کے جیت گئے اس کے باوجود مریم نواز کا اصرار تھا کہ وہ نا اہل ہو چکے ہیں۔ مریم نواز کا خیال تھا کہ لانگ مارچ میں عمران خان کی سکیورٹی پر عوام کے کروڑوں روپے کیوں خرچ ہو رہے ہیں ۔ یہی سوال جب ایک صحافی نے کئی سال پہلے لاہور میں نواز شریف سے ان کی سکیورٹی سے متعلق کیا تھا تو اس صحافی کو اپنی نوکری کے لالے پڑ گئے تھے اور اسے ن لیگ کی کوریج بیٹ سے ہٹا دیا گیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ مریم نواز کو روایتی باتوں سے ہٹ کراز سر نو اپنی سیاسی حکمت عملی بنانے پر توجہ دینی ہو گی۔ روایتی نعروں اور دعووں سے وہ اب تک عمران خان کے خلاف کوئی بھی طاقتور بیانیہ بنانے میں ناکام رہی ہیں ۔حالیہ الیکشن نتائج اس کا واضح ثبوت ہیں ۔ لہذا اگلے الیکشن سے پہلے ن لیگ کو اپنی کھوئی ساکھ کو بحال کرنا ہے تو عمران خان فوبیا سے ہٹ کر نئے سرے سے منصوبہ بندی کرنا پڑے گی شاید کہ حالات میں کچھ بہتری ہو پائے ۔