گریۂ شب کو جو سیلاب بنا دیتی ہے وہی صورت مجھے بے آب بنا دیتی ہے تجھ کو معلوم نہیں کیا ہے محبت کا کمال جس کو چھوتی ہے اسے خواب بنا دیتی ہے بس وہی ذات ہے جو شعور و آگہی دیتی ہے اور ویسے بھی وہ مہربان ہے ’’میری آنکھوں کو وہ خال نہیں رہنے دیتی ،کہیں تارا کہیں مہتاب بنا دیتی ہے۔اور سب سے اہم بات جو میں کرنے جا رہا ہوں کہ ’بے یقینی میں کبھی سعد سفر مت کرنا ،یہ تو کشتی میں بھی گرداب بنا دیتی ہے ‘۔ بڑی بڑی خبروں کے درمیان ایک چھوٹی سی خبر پر نظر پڑی تو میں خوش گمان سا ہو گیا کہ آرمی چیف نے اقبال کا شعر پڑھا: نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستاںوالو تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں یقینا اس شعر میں ایک پیغام ہے جو کہ عیاں ہے یہ محض ایک شعر نہیں ہے اور یہ خطاب صرف ہندستان والوں تک محدود نہیں۔ اس شعر کا تعلق ویسے بھی سمجھ اور شعور کے ساتھ ہے اس کا تعلق اپنی شناخت پہچان اور تشخص کے ساتھ ہے ،ویسے دیکھا جائے تو ہندوستان کے مسلمان ہماری نسبت زیادہ بیدار دکھائی دیتے ہیں فی الحال ہمیں تو اپنی بات کرنی ہے۔ حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ معاملات ایک حد تک پہنچ کر واپس پلٹ رہے ہیں یعنی بہت ہو چکی ظاہر ہے اس کے لئے طاقت کا استعمال لازم ہے۔ ہمارے سیاسی لوگ جو کانٹے بکھیر چکے ہیں اچھی بات کوئی بھی کرے اور وہ ملک کے لئے فائدہ مند ہو تو ہم اپنے قلم سے کام لیں گے۔ ہم جو عرصہ سے سوچ رہے تھے وہ اگر آرمی چیف کے حکم پر ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے ۔غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو 31اکتوبر تک انخلا کی ڈیڈ لائن اگر ایسا نہ ہوا تو یکم نومبر سے ان کے کاروبار اور جائیدادیں ضبط کر لی جائیں گی۔ یہ ایک بہت بڑا اقدام ہے ۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں سب آپ کے سامنے آ جائے گا کہ نادرا کو بھی حکم مل گیا ہے کہ جعلی شناختی کارڈ پکڑے اور تو اور اس سے دہشت گردی کو لگام ڈالنے میں بھی مدد ملے گی۔آرمی چیف نے درست کہا کہ ہمارے پاس ایک ہی آپشن ہے کہ ہم متحد ہو کر نئے چیلنجز کے سامنے کھڑے ہوں اور ریاستی رٹ قائم ہو ۔مجھے لگتا ہے کہ اس سمت میں اور اقدام بھی کرنے چاہئیں۔ دوہری شہریت کے حوالے سے بھی بات کی جائے باہر جائیدادیں بنانے والوں کو بھی نمٹا جائے۔ ایک تماشا لگا ہوا ہے کہ ذرا سی بات پر سیاستدان لندن پہنچتے ہیں یا دبئی۔ان کے قیام کو اپنے ملک میں یقینی بنایا جائے۔ اشرافیہ اور غریب کے بچوں کے تعلیم یکساں کی جائے۔بات چل نکلی ہے تو یہ ایکشن کیوں نہیں لیا جا سکتا کہ ہماری مسکین اور یتیم زبان اردو کو اس کا مرتبہ اور مقام دلایا جائے کہ یہ تو حضرت قائد کا خواب تھا اور اس کے بعد 73ء کے آئین میں بھی شامل کیا گیا کہ 15سال بعد یہ دفتری زبان بن جائے گی مگر بیورو کریسی کے آگے کسی کی نہیں چل پاتی کہ لوگوں کو اپنے معاملات کہیں سمجھ میں آنے لگ جائیں۔ عدلیہ کے فیصلوں کے باوجود بھی کچھ نہ ہوا ،ویسے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی اس خیال کے ہیں کہ اردو رائج ہو اسے بزور نافذ کرنا چاہئے۔ اگر اس قوم کو اپنی زبان اردو مل گئی تو وہ اصل آزادی کا دن ہو گا۔ اپنی زبان پر فخر کرنا ہو گا کہ ہماری پہچان اور شناخت یہی ہے۔ اس کا ثبوت یہ کہ ہندو اردو کے سخت مخالف ہیں اور اسے مسلمانوں کی زبان سمجھتے ہیں: اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے یہ بات موضوع سے ہٹ کر نہیں کہ جب اردو زبان رائج ہو گی تو اس سے لوگ قریب آئیں گے۔ زبان زنجیر بن کر سب کو یکجا کرے گی ۔یقینا آپ سوچ رہے ہونگے کہ اس وقت تو انتخابات کی بات چل رہی ہے اور لوگ تو 21اکتوبر کو نواز شریف کا استقبال کریں گے۔ بقول ن لیگ وہ جلسہ کے بعد اپنے آپ کو قانون کے سامنے سرنڈر کریں گے۔ویسے یہ کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ یہ فیصلہ نواز شریف کو کرنا ہے کہ وہ کب اور کیسے سرنڈر کریں گے ۔ بقول مریم لوگ امید اور ترقی کا استقبال کریں گے مگر وہ ترقی اور خوشحالی جو شہبازشریف چھوڑ کر گئے ہیں اس کا کیا بنے گا۔ایک اور بات یہ کہ اب تو مولانا فضل الرحمن بھی جنوری میں ہونے والے انتخابات کے حق میں نہیں کہ سردی بہت ہو گی۔ یہ گرمی سردی بھی عجب شے ہے۔ اصل بات کچھ اور ہے جو نواز شریف زیادہ سمجھتے ہیں اور وہ میدان کو خالی مانگتے ہیں۔مگر ایسا ممکن نہیں مولانا نے یہ بھی کہا ہے کہ الیکشن سے پیشتر ملکی معیشت کو سنبھالا دیا جائے۔ اس میں تو سیدھا سادہ پیغام اور تائید ہے۔ کوشش تو ہو رہی ہے اور اس میں ڈالر کچھ واپس تو آیا ہے اور پٹرول بھی آٹھ روپے فی لٹر کم ہوا ہے۔ مگر بجلی کا جھٹکا ضروری تھا۔ میٹنگز ہو رہی ہیں۔ اب تو محسن نقوی بھی نگران نہیں اصل وزیر اعلیٰ لگتے ہیں ۔کسی دل جلے نے اچھا کہا ہے کہ وہ تو سکولوں میں جاکر ڈسپلن چیک کر رہے ہیں اور استاد انتخابی ڈیوٹیوں کے لئے اجلاس اٹینڈ کر رہے ہیں۔ جہاں تک مہنگائی کا رونا ہے یہ حکومت کا معاملہ ہی نہیں عالمی بنک نے صاف کہہ دیا ہے کہ رواں سال میں عوام کو ریلیف ملنے کا نہیں۔اس سے یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ اگلے سال کوئی ریلیف تیار ہو گا ہم سب کو اپنے آپ کو بدلنا ہے۔ یہ بات تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درست کہی ہے کہ جب مارشل لاء تو سب ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور جب پارلیمان کچھ کرے تو حلف یاد آ جاتا ہے ۔خدا کرے چیف جسٹس صاحب اسمنافقت کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ذخیرہ اندوز، سمگلر اور دہشت گرد تو پیار کی زبان نہیں سمجھتے ایک شعر کے ساتھ اجازت: اک نہ اک روز نکل آئے گا دیوار سے در ہم وہ خودسر ہیں کہ اب لوٹ کے جانے کے نہیں