زمانے کے تین دور ہوتے ہیں ماضی حال مستقبل۔ اسی طرح افراد اور قوموں کی تاریخ میں بھی یہی تین دور ہوتے ہیں۔اگر ہم پاکستان کے بارے میں غور کریں کہ پاکستان کے یہ تین ادوار کیسے رہے ہیں اور ہوں گے تو ہمیں سب سے پہلے ماضی کو دیکھنا ہوگا۔76سالہ تاریخ پاکستان کی سیاسی انتظامی اور فکری تنزلی کی تاریخ ہے جب پاکستان نیا نیا آزاد ہوا تو اس کو بہت سے مسائل کا سامنا تھا لیکن اس وقت کی قیادت نے پاکستان کے جو بھی ذرائع تھے ان کا درست طریقے سے استعمال کیا ،مہاجرین کو بحال کیا گیا، پاکستان میں ائین سازی کا سفر شروع ہوا۔آہستہ آہستہ پاکستان میں صنعت سازی کا دور بھی شروع ہو۔ا 1970تک ہم سیاسی لحاظ سے تو بہت پیچھے رہ گئے تھے مگر معاشی لحاظ سے پاکستان کی صورتحال کافی بہتر تھی۔ آج کی ترقی یافتہ اقوام چین، کوریا، انڈونیشیا اس وقت پاکستان سے زیادہآگے نہیںتھیں۔ 1970کے بعد پاکستان میں سیاسی کے ساتھ ساتھ معاشی تنزلی بھی شروع ہوئی۔ اس میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے علاوہ اس وقت کی حکومت کی نیشلائزیشن کی پالیسی بھی تھی۔ جس میںبہت سارے نجی اداروں کو حکومت کی سرپرستی میں دے دیا گیا اور آہستہ آہستہ ان کا خاتمہ ہو گیا۔ پاکستان کی سیاسی تنزلی کا سفر جو 1970سے شروع ہوا اب تک جاری ہے البتہ اس میں چھوٹے چھوٹے وقفے آتے رہے ہیں ۔جس طرح کسی بڑے سمندر میں چھوٹے چھوٹے جزیرے ہوتے ہیں اب صورتحال یہ ہے کہ ہم معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔ سیاسی طور پہ عدم برداشت اپنے عروج پہ ہے۔آج تک پاکستان کا کوئی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا اور کئی سابقہ وزیر اعظموں کو پھانسی جلاوطنی اور جیل نصیب ہوئی اس وقت پاکستان میں زر مبادلہ کے ذخائر آخری حدوں پہ ہیں ملک میں صنعتی ترقی رک چکی ہے۔ ریلوے ، پی آئی اے سٹیل مل جیسے نکمے ادارے پاکستان کی معیشت پر بوجھ ہیں۔ تعلیمی لحاظ سے ہم اس وقت بہت پیچھے ہیں اگر چند افراد کچھ بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں تو وہ بھی چند بر سوںمیں بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔اس وقت پاکستان میں ناامیدی اپنے عروج پہ ہے۔ معیشت کب بحال ہوگی اور ڈالر اور پیٹرول کی قیمتوں کو کب تک مکمل لگام ملے گی۔اس وقت عوام آٹا اور بجلی کے دو بڑے طوفانوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ لیکن ان سب عوامل سے زیادہ خطرناک چیز نوجوانوں کے اندر پائی جانے والی بے یقینی ہے۔۔پاکستان میں خواتین کی آدھی سے زیادہ آبادی خون کی کمی کا شکار ہے اور آدھے سے زیادہ بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں اور ان کی نشوونما بہت کم ہو رہی ہے۔ جس قوم کی ہونے والی مائیں کمزور ہوں اور جس کے آنے والے نوجوان کمزور ہوں وہ ملک کس طرح ترقی کر سکتا ہے۔ ابھی تک ہم نے ان خطروں کو اچھی طرح سے بھانپا ہی نہیں ہے، ان کا ہم مقابلہ کیا کر سکتے ہیں۔ خوراک کی کمی کی ایک بہت بڑی وجہ غربت ہے۔ جب تک ملک میں معاشی سرگرمیاں اچھے طریقے سے نہیں ہوں گی تو ہم خوراک کی کمی کو پورا نہیں کر سکتے اور معاشی ترقی کے لیے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے ۔ سیاسی استحکام کے لیے ہمیں ساری قوم کو متفق ہونا پڑے گا اور اپنے اصل مسائل کو سامنے لانا ہوگا اور اس کے بعد جدوجہد کرنی ہوگی کہ ہم کسی طرح اس بھنور سے نکل سکے۔ہمیں اپنے بچوں کو اچھی خوراک دینا ہوگی ہمیں اپنے بچوں کی ماؤں کو بہتر خوراک دینا ہوگی تاکہ صحت مند نوجوان انے والے دنوں میں ملک کی ترقی میں کوئی اہم کردار ادا کر سکیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو ہمارے پاس ایک ایسا ہجوم ہوگا جو ذہنی طور پہ بھی کمزور ہوگا اور جسمانی طور پہ بھی کمزور ہوگا ۔حکومت کے ساتھ ساتھ ہمارے عوام کو کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ کس طریقے سے پرانے اور فرسودہ خیالات سے نجات پا سکتے ہیں اس وقت زراعت میں بہت حد تک وہی نظام کر رہا ہے جو پانچ ہزار سال پہلے تھا۔ ہم اپنی جانوروں کے لیے اچھا چارہ نہیں پیدا کر رہے ،جب اچھا چارہ نہیں ہوگا تو ہمارے پاس وافر دودھ نہیں ہوگا جب ہمارے پاس وافر دودھ نہیں ہوگا تو ہم اپنے بچوں کی خوراک کی کمی کس طرح پوری کر سکتے ہیں۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن اس وقت پاکستان میں دودھ اور گوشت کی کمی ہے۔ پاکستان میں سبز انقلاب لانے نعرے مارنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ پاکستان آج تک گندم کی پیداوار میں بھیخود کفیل نہیں ہو سکا۔ ہمیں اپنے بنجر رقبے آباد کرنا ہوں گے اور اور لائیو سٹاک پر خصوصی توجہ دینی ہوگی ۔اگر صرف ہم اپنا زراعت کا شعبہ ٹھیک کر لیں تو پاکستان میں بہت حد تک بے روزگاری پہ قابو پایا جا سکتا ہے اور پاکستان کے غذائی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اس طرح سے ہمارا صحت پر خرچ ہونے والا بہت سارا بجٹ بچ سکتا ہے۔ہم معاشی طور پہ خوشحال ہو سکتے ہیں جب کسان کے پاس پیسہ ہوگا ،چھوٹے دکاندار کے پاس پیسہ ہوگا ،چھوٹے دکاندار کے پاس پیسہ ہوگا ، بڑے تاجر کے پاس پیسہ ہوگا ۔جب بڑے تاجروں کے پاس پیسہ ہوگا تو ملک میں انڈسٹری بحال ہوگی۔ جب ملک میں انڈسٹری لگے گی تو مزدور خوشحال ہوگا اور مزدور کے خوشحال ہونے سے کسان خوشحال ہوگا کیونکہ جو کسان پیدا کرتا ہے وہ مزدور خریدتا ہے اس طرح سے ہمیں بنیادی سطح پہ معاشی عمل شروع کرنا ہوگا ۔جب کسان اور مزدور خوشحال ہوں گے تو ملک کی خوشحالی کو کوئی نہیں روک سکتا ورنہ بڑے بڑے نام نہاد پراجیکٹ لگانے سے ملک میں خوشحالی نہیں آ سکتی ۔جب تک ہمارے پاس پروڈکشن نہیں ہوگی تو ہم اپنی صنعتوں کے لیے خام مال کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ کسی بھی ملک کا اصل اثاثہ اس کے عوام ہوتے ہیں کسی ملک میں معدنیات ختم ہو سکتی ہیں لیکن اگر اس کی عوام تندرست اور توانا ہوں گے تو اس ملک پہ کبھی برا وقت نہیں آسکتا۔ بہت ساری مثالیں ہمارے سامنے ہیں اس وقت ہندوستان کے نوجوان آئی ٹی کے ذریعے زیادہ دولت سمیٹ رہے ہیں جتنی دولت سعودی عرب تیل کے ذریعے حاصل کر رہا ہے۔