مقبوضہ کشمیرکی وسیع وعریض عیدگاہ اورعظیم الشان مسجد اورتاریخی مزار شہداء ،اہل اسلام کے یہ تینوں مقامات ایک ہی جگہ شمالی سری نگر میں واقع ہیں۔ سری نگرکی عیدگاہ روزاول سے ہی مسلمانان کشمیرکا مرکز رہی ہے ۔ آج کل یہ عید گاہ کشمیرکے چوپالوں میں زیر بحث ہے۔یہ بحث اس وقت سے شروع ہے کہ جب عیدگاہ سری نگر سے متعلق مودی کی طرف سے رچائی جانے والی زہرناک سازش طشت از بام ہوئی۔ ستمبر2022ء کے وسط میں 650کنال یعنی 81 ایکڑ اراضی پر مشتمل سری نگر کی عیدگاہ کو کرکٹ گرائونڈ میں بدل دینے کی خبریں سامنے آئیں جن سے واضح ہو رہا ہے کہ عیدگاہ کو مسلمانان کشمیر سے جبری طور چھینا جا رہا ہے۔ یہ ناپاک منصوبہ مودی کے اس فساد فی الارض کا حصہ ہے جس کے ذریعے وہ اسلامیان کشمیر کوان کے عظیم دینی ،ثقافتی اورتاریخی مقامات سے محروم کرناچاہتا ہے ۔ مودی فسطائیت نے مقبوضہ کشمیر میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف ایک کثیرالجہت ناپاک منصوبہ ترتیب دے رکھا ہے جس کامقصد کشمیر کی مسلم شناخت کا خاتمہ ہے ۔سوال یہ ہے کہ عید گاہ سری نگر بھارت کوکیوں کھٹک رہی ہے۔دراصل عیدگاہ کے ساتھ جو مزار شہداء ہے جہاں ہزاروں شہداء کرام کی آخری آرام گاہیں قائم ہیں بھارت ان سے خوفزدہ ہے کیونکہ یہ مزارشہداء تحریک آزادی کشمیر کو زندہ رکھنے کے لئے آکسیجن کاکام کر رہا ہے ۔ کشمیر میں اسلام کی سب سے موثر اور منظم تبلیغ کا آغاز چودہویں صدی عیسوی میں اس وقت ہوا جب مبلغ بلال شاہ المعروف بلبل شاہ 1324ء میں رنجن شاہ حاکم کشمیر کے عہد میں کشمیر تشریف لائے۔ رنجن شاہ جو پہلے بدھ مت کا پیر و کار تھا۔ اس نے بلال شاہ المعروف بلبل شاہ کے دست مبارک پر بیعت کرتے ہوئے اسلام قبول کیا اوران کا اسلامی نام صدرالدین رکھاگیا،یوں وہ کشمیر کا پہلا مسلمان حکمران مانا جاتا ہے۔ صدرالدین کے ہمراہ ان کا خاندان اور ان کی سلطنت کے امرء اور وزرا ء بھی مشرف بہ اسلام ہو ئے۔ چودہویں صدی ہی کے اواخر میں سرزمین ہمدان سے سید علی ہمدانی جنہیں ملت اسلامیہ کشمیر ’’امیرکبیر‘‘ کے لقب سے یاد کرتی ہے کشمیر میں تبلیغ اسلام کے لیے تشریف لائے۔ ان کی تبلیغ کی ایک مجلس میں بیک وقت 37 ہزار لوگوں نے اسلا م قبول کرکیا تو ارض کشمیر کے بام ودرنورلاالٰہ سے جگمگا اٹھے۔امیر کبیرسیدہمدانی نے ریاست کشمیر کے چپے چپے کا دورہ کیا اوراپنے ہمراہ ساتھ آئے 700رجال کار کوکشمیرکے مختلف علاقوں بالخصوص سری نگر شہرمیں بٹھا کرحلقہ بگوش اسلام ہونے والے کشمیریوں کودینی تعلیمات دینے کے ساتھ ساتھ انہیں مختلف قسم کے ہنر بھی سکھائے اور مسلم سوسائیٹی کی بنیاد رکھی ۔ تاریخ کشمیربتلا رہی ہے کہ جب سرزمین کشمیر اسلام کے نور سے منور ہوئی اور یہاں کے باشندے سوائے چند ایک کے سب کے سب حلقہ بگوش اسلام ہوئے تو اس کے معاََ بعد عیدگاہ کا قیام عمل میں لایاگیا تب سے عیدین کے موقع پر ہر سال یہاں جموںوکشمیرکے مسلمانوں کاسب سے بڑا دینی اجتماع منعقدہوتا ہے۔ ابتدائی دور میں ارض کشمیر میں ارتدادکی کوششیں ہوئیں اوراہل حق اور مرتدین کے درمیان اسی وسیع ترین عیدگاہ میں مناظرے منعقد ہوتے رہے جہاں مرتدین کو شکست ہوتی۔عصر موجودکی بات کریں تو جموںوکشمیر کی جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعت کے اجتماعات بھی یہاں منعقد ہوتے رہے ہیں۔ البتہ1990ء میں جب مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی جبری قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد شروع ہوئی تب سے بھارت کی آنکھوں میںسری نگرکی عید گاہ کھٹکنے لگی ۔ عیدگاہ سری نگرکے احاطے میں ایک تاریخی مسجد ہے جوعالی مسجد کے نام سے معروف ہے ۔ یہ مسجد 1471ء میںکشمیرکے بادشاہ سلطان حسن شاہ کے دور میں تعمیر کی گئی ۔ یہ مسجد سری نگرکی تاریخی جامع مسجد کے بعد دوسری سب سے بڑی مسجد بھی ہے۔ لکڑی کے فن تعمیرکی یہ مسجد وسطی ایشیائی طرزتعمیراور مقامی روایات کے درمیان ایک منفرد ترکیب کو ظاہر کرتی ہے۔ اس مسجدکی دیوداروں اورکالموں کی بنیاد مختلف ڈیزائنوں کیساتھ نقش و نگار کے پتھر کے پیڈسٹلوں پر رکھی گئی ہے۔ 1990ء میںعیدگاہ سری نگر کے ایک بڑے حصے کو اس وقت مزارشہداء میں بدل دیاگیا کہ جب بھارتی قابض فوج نے کشمیری مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا۔قابض اورسفاک بھارتی فوج کی سفاکیت اوربربریت کے باعث اب تک ایک لاکھ سے زائدکشمیری مسلمان شہید ہوئے ہیں جن میں اکثریت سری نگرکے مزارشہداء میں دفن ہے۔یہ مزار شہداء رواںتحریک آزادی کی رگوں میں جوش بھر رہا ہے ۔یہاں سے گزرنے والا ہرمتنفس عین الیقین کے ساتھ یہ محسوس کر رہا ہے کہ اس مزار شہداء میں دفن ہزاروں شہداء اسے بزبان حال فرما رہے ہیں کہ ’’ہم نے اپناآج تمہارے کل پرقربان کردیا‘‘ تمہیں قسم ہے کہ ہمارا لہو بھلانہ دینا اور بھارت سے آزادی حاصل کرکے ہی دم لینا۔سر ینگر کے مزارشہداء میں دو خالی قبریں بھی ہیں جو انتظار میں بیٹھی ہیں ۔ان دوخالی قبروں میں سے ایک قبر مقبول بٹ شہیداوردوسری قبر پہلی قبر کے پہلو میں ہے جوافضل گورو شہید کے لئے مختص ہے جنہیں دو الگ الگ موقعوں پر بھارت نے دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دے کرشہید کردیا تھا اورانکے جسد خاکی کو ان کے لواحقین کے سپرد کرنے کے بجائے تہاڑ جیل کے کسی کھدرے میں ہی دفناکرجرم عظیم کیا۔ سری نگر کے مزار شہداء میں موجود ان دونوں خالی قبروں پر بالترتیب شہید مقبول بٹ اورشہید افضل گوروکے نام سے کتبے لگے ہوئے ہیں۔ سرینگر کے شمالی علاقے عیدگاہ میں واقع اس مزار شہدا کے باہرہمیشہ بھارتی فوج سی آر پی ایف اہلکاروں کاحصار رہتا ہے جو یہ چیک کرتے ہیں کہ یہاں کون لوگ آتے ہیں۔ بھارت نہیں چاہتاکہ عیدگاہ تحریک آزادی کشمیرکا مرکز بنی رہے وہ چاہتا ہے کہ کسی دلفریب منصوبے کے تحت عید گاہ سری نگرکی مرکزیت ختم ہواورنوجوان یہاں شہداء کے قبروں سے متاثر ہونے کے بجائے کھیل کودکی طرف مائل ہوں ۔