سعادت حسن منٹو نے کہا تھا سیاست کی لاش، ہمارے سیاست دان کاندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں اور سیدھے سادے لوگوں کو جو ہر بات مان لینے کے عادی ہوتے ہیںان سے یہ کہتے پھرتے ہیں کہ وہ اس لاش کو ازسرنو زندگی بخش رہے ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف نے عمران خان کو کرہ ارض پر سب سے زیادہ جھوٹ بولنے والا شخص قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کی اداروں کو کمزور کرنے کی خواہش پوری نہیں ہو گی۔ وزیرا عظم صرف دعوے ہی نہیں بلکہ دعوئوں کو عملی جامہ پہنانے پر یقیں رکھتے ہیں۔وہ اس کا عملی مظاہرہ اقتدار سنبھالتے ہی احتساب بل 2022ء قومی اسمبلی سے منظور کروا کر دے بھی چکے۔ پچاس کروڑ روپے سے کم مالی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا اختیار نیب سے واپس لینے علاوہ ادارے کو مزید مضبوط کرنے کے لئے یہ بھی ترمیم کر دی کہ وفاقی حکومت متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے مشورے سے احتساب عدالتوں کے جج مقرر کرے گی۔ چیئرمین نیب کی تقرری کااختیارتو پہلے ہی وفاقی حکومت کے پاس تھا۔ ترامیم میں یہ بھی شامل ہے کہ چیئرمین نیب کو اختیار ہو گا کہ وہ کرپشن مقدمات میں فرد جرم عائد ہونے سے پہلے جس کیس کو چاہے واپس لے سکتا ہے۔ نیب ترامیم کے بعد وزارت عظمیٰ کی گنگا میں اشنان کرتے ہی وزیر اعظم اور حکومتی پارٹی کے ارکان بشمول فرزند ارجمند پوتر ہو چکے۔ وزارت عظمیٰ کے حلف لینے کے دن جس مقدمے میں شہباز شریف پر فرد جرم عائد ہونی تھی وزیر اعظم کو اس مقدمے میں حاضری مستقل استثنیٰ مل چکا ہے۔ چیئرمین نیب اور وفاقی حکومت کے مشوروں کے بعد نیب ججز کی تقرری کے اختیار نے استعمال ہونے سے پہلے ہی اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا۔ کرپشن کے جن مقدمات میں مجرمان کو سزا ہو چکی وہ سزا یافتہ ’’انصاف ‘‘کے لئے عدالتوں کا رخ کریں گے اور ’’انصاف یاب‘‘ ہوں گے۔ ’’انصاف‘‘ سے فیض یابی کی ابتدا مریم نواز کے پاسپورٹ کی واپسی کے بعد نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے فیصلوں پر سماعت سے ہو چکی۔ بھائی بھتیجی بیٹے ہی کیوں؟ وہ رند لکھنوی نے کہا تھا نا کہ: کریم جو مجھے دیتا ہے بانٹ کھاتا ہوں مرے طریق میں تنہا خوری حلال نہیں ’’کریم‘‘ نے جو اختیار دیا اس کا پھل سب کرپشن خوروں پر حلال ہو چکا۔اس ’کریمی‘ ترمیمی آرڈیننس کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزرائے اعظم نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، یوسف رضا گیلانی پر بھی بانٹ کھانا حلال ہو جائے گا ۔نواز شریف کی ایون فیلڈ ریفرنس کی سزا عدالت کے ذریعے ختم کراونے کی ابتدا ہو چکی۔ آصف علی زرداری کا جعلی اکائونٹس کیس بھی آرڈیننس کے باعث غیر موثر ہی سمجھیے ، سابق وزیر اعظم پرویز اشرف سابق وزیر داخلہ احسن اقبال اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی گنگا نہائیں گے۔ علیم خان، فواد حسن فواد بھی ترمیمی گنگا میں ہاتھ دھوئیں گے۔بقول عمران خان کے نیب ترامیم کے بعد شہباز شریف کے 11سو ارب سمیت کرپشن کے 4ہزار ارب روپے کے مقدمات ختم ہو جائیں گے۔ شہباز شریف نے صرف نیب کو مضبوط کر کے ہی قومی خدمت انجام نہیں دی بلکہ ان کا سیاست کی لاش کو زندگی بخشنے کا ہنر دیگر اداروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی گزشتہ حکومت نے ملک سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر فوصل فیول سے چلنے والے بجلی گھر لگائے تھے۔ ان میں سے کچھ میں شہباز شریف نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور دنیا کو شہباز سپیڈ کا متعرف ہونا پڑا تھا۔ وزیراعظم بنے کے بعد ایک بار پھر صلاحیتوں اعتراف کروانے کے لئے حکومت نے گزشتہ ہفتے انڈیکٹو جنریشن کیپسٹی ایکسپینشن پلان کے تحت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ادوار میں لگنے والے انہیں مہنگے فیول سے چلنے والے بجلی گھروں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے ان منصوبوں کی جگہ نئے منصوبے شروع کئے جائیں گے۔ منصوبے بھلے ہی ختم ہو جائیں مگر ان منصوبوں کے قرضے باقاعدگی سے ادا کئے جاتے رہیں گے۔ حکومت کے قوم کی خدمت اور خلوص تو دیکھئے چین کے مالیاتی اداروں سے اگر کسی پاور پلانٹس کی تعمیر کے لئے 300ملین ڈالر قرض لیا ہے تو 20سال میں قوم اپنا پیٹ کاٹ کر 700ملین اضافی یعنی ایک بلین ڈالر قرض خواہوں کو دیتی رہے گی۔ جو منصوبے شہباز سپیڈکی مثال تھے اب اس سپیڈ سے ہی ان کوبند کیا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق ان منصوبوں میں درآمد ایل این جی سے چلنے والے 5پاور پلانٹس شامل ہیں۔ شہباز شریف نے غیر ملکی میڈیا کو ایک انٹرویو میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ عمران خان نے بلا جواز امریکہ سے تعلقات خراب کئے۔شہباز شریف اب عمران خان کے خراب کئے تعلقات کو بحال کرنے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم کی امریکہ سے تعلقات کی بحالی میں سنجیدگی کا اندازہ تو اس بات سے بھی ہو جاتا ہے کہ ان کے وزیر خارجہ حلف لینے کے بعد پاکستان سے زیادہ عرصہ امریکہ میں مقیم رہے ۔یہ حکومت کے تعلقات کی بحالی کا ہی ثمر ہے کہ پاکستان میں 2022ء میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں 56فیصد اضافہ ہوا ہے۔ افغان سرحد پر شرپسندوں کی کارروائیاں معمول بن چکی ہیں۔ جو طالبان پاکستان کا سٹریٹجک اثاثہ سمجھے جاتے تھے۔ان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد شدت پسند افغان سرحد پر باڑ اکھاڑ کر پاکستان پر حملے اور پاکستانی فوجیوں کو شہید کر رہے ہیں۔ منٹو سیاست اور سیاستدانوں کے بارے میں جو بھی کہیں مگر کم از کم پاکستانی سیاستدانوں نے یہ سچ ثابت کر دکھایا کہ وہ جس سیاست کی لاش کو کاندھوں پر اٹھائے پھر رہے ہیں وہ اس لاش کو ایک بار نہیں ہر بار زندگی بخشنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔حکومت کے اسی ہنر کے بارے میں رند لکھنوی نے کہا تھا: آنکھ سے قتل کرے لب سے جلائے مردے شعبدہ باز کا ادنیٰ سا کرشمہ دیکھو پاکستان میں بچھی سیاسی بساط پر اب عوام بھی ہر کھلاڑی کو شہ مات دینے کے لئے ا پنی چال چلنے کے لئے پوری سوچ بچار کر رہے ہیں ، اگر یہ کھیل جاری ر ہا تو ممکن ہے اس بار بازی عوام کے ہاتھ رہے جنہیں ہر بار مات دے کر بساط سے اٹھا دیا جاتا تھا۔