اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بھارتی سپریم کورٹ سے لیکرنچلی عدالتوں تک بھارت کاسارا عدالتی نظام ہندوتوا کاآلہ کار بن چکاہے۔تاریخی بابری مسجد جیسے فیصلوں نے ثابت کیا ہے کہ حکومت بھارتی مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔بھارتی سپریم کورٹ مودی کی حکومت کو مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کرنے سے روکنے سے انکار کے بعد اقلیتوں کیلئے اذیت کا باعث بن چکی ہے۔ ا س سے پہلے مسلمان لڑکیوں کو حجاب پہننے سے روکنے کے ایک معاملے میں کرناٹک کی ایک ہائی کورٹ نے مارچ میں کہا تھا کہ سر پر سکارف اسلام کے لئے ضروری نہیں ہے۔ 2018 میں ایک بھارتی عدالت نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سینئر رکن مایا کوڈنانی کی سزا کو کالعدم قرار دیا جنہیں 2002 میں ریاست گجرات میں 97 افراد کے قتل میں حصہ لینے پر 28 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ 2018 میں ایک خصوصی عدالت نے سوامی اسیمانند سمیت 2007 میں حیدرآباد کی مکہ مسجد بلاسٹ کیس کے تمام ملزمان کو بری کردیا، جس کے نتیجے میں نو افراد ہلاک اور 58 زخمی ہوئے تھے۔تمام ملزمان کا تعلق ہندوتوا نظریے پر عمل کرنے والی تنظیموں سے تھا۔سمجھوتہ ایکسپریس کیس میں 2019 میں ایک خصوصی عدالت نے بمباری میں ملوث چاروں افراد کو بری کردیا۔ سمجھوتہ ایکسپریس میں سوار کم از کم 64 افراد اس وقت ہلاک ہوئے جب ایک ہندو دائیں بازو کی تنظیم نے 2007 میں ایک دیسی ساختہ دھماکہ خیز مواد سے دھماکا کیا تھا۔اتر پردیش پولیس کے ہاتھوں 42 مسلمانوں کے بدنام زمانہ قتل عام کے لیے دہلی ہائی کورٹ نے 2018 میں مجرم پولیس اہلکاروں کو مجرم قرار دینے میں 31 سال کا عرصہ لگا دیا۔مالیانہ میں 72 مسلمانوں کے قتل عام کے مجرموں کو 34 سال بعد بھی سزا نہیں دی گئی –کیس کو 900 بار ملتوی کیا گیا۔اس ملک کے تقریبا ًہر فرقہ وارانہ فسادات میں، چاہے وہ دہلی (1984) ہو یا دہلی (2020)، پولیس مسلمانوں پر انتہا پسندہندوئوں کی طرف سے مظالم ڈھانے میں مدد فراہم کرنے یا انہیں جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر سزا دینے میں ملوث پایا گیا۔ ہندوستان میں مسلمان اب بھی 1992 میں بابری مسجد کو شہید کرنے کا درد محسوس کرتے ہیں، جہاں بھارتی سپریم کورٹ نے 2019 میں واقعے کے 28 سال بعد فیصلہ دیا کہ یہ جگہ بھگوان رام کی جائے پیدائش سے تعلق رکھتی ہے اور تعمیر کے لیے ایک ٹرسٹ کو زمین دی گئی ہے۔ دوسری طرف پاکستان مذہبی اقلیتوں کی آزادی کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ بایں ہمہ !بھارت کے عدالتی نظام کی مسلم کش اورمسلمان دشمن تاریخ میں 2 مار چ 2023کو ریاست مہاراشٹر کے مالیگاؤں کی ایک مجسٹریٹ نے ایک رکشہ ڈرائیورمسلمان بھارتی شہری رؤف عمر خان جس پرجھگڑاکرنے کاالزام عائدتھاکے حق میں ایک منفرد فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ملزم اگلے 21 دنوں تک باقاعدگی سے پانچوں وقت نماز ادا کرے گا۔مجسٹریٹ تیجونت سنگھ سندھو نے اپنے فیصلے میں 30 سالہ ملزم رؤف عمر خان سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ قریبی مسجد میں اپنے اعمال کے کفارہ کے طور پر دو پودے لگائیں گے اور پھر اس کی دیکھ بھال کریں گے۔ مجسٹر یٹ کے حکم کے مطابق ملزم نے عدالت کو بتایا کہ وہ ایک غریب آدمی ہیں اور ان پر خاندان کی روزی روٹی کی ذمہ داری ہے۔ ’’پروبیشن فار آفینڈرز ایکٹ‘‘ عدالت مجرم کو نصیحت یا مناسب تنبیہ کے بعد رہا کرنے کی اجازت دیتا ہے تاکہ ملزم دوبارہ جرم نہ کرے۔ اس حکم میں مجسٹریٹ نے مشاہدہ کیا ہے کہ ’’میرے مطابق مناسب وارننگ دینے کا مطلب ہے کہ یہ سمجھنا کہ جرم کیا گیا ہے، ملزم کا جرم ثابت ہو چکا ہے اور وہ اسے یاد رکھے تاکہ وہ دوبارہ جرم نہ دہرائے‘‘۔عدالت نے مزید کہا کہ ملزم نے اعتراف کیا ہے کہ وہ ایک دیندار مسلمان ہیں اور ان پر نماز پڑھنا فرض ہے لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے وہ نماز نہیں ادا کر پاتے۔اس تناظر میں مجسٹریٹ نے کہا کہ اس کو اس شرط پر چھوڑنا مناسب ہوگا کہ وہ کل سے 21 دنوں تک مسلسل فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشا ء کی پانچ وقت نمازیں پڑھے۔ مقدمے میں پبلک پراسیکیوٹر نسرین میمن نے کہا کہ ان کے خیال میں جج نے ملزم کے اصلاح کے نظریے سے یہ فیصلہ سنایا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’مجھے ایسا لگتا ہے کہ جج ملزم کی (معاشی) حالت دیکھتے ہیں، جج کا نظریہ تھا کہ اگر اتنے معمولی جرم کے لیے انھیں جیل بھیجا جاتا ہے تو وہ شاید بڑے مجرم بن جائے گا۔وہ کہتی ہیں کہ شاید اس امید کے ساتھ یہ فیصلہ دیا گیا ہے کہ وہ اس (اصلاحی فیصلے) کے بعد کی غلط حرکت نہ کریں، سدھر جائیں۔ میرے حساب سے یہ فیصلہ ان کی اصلاح کے لیے سنایا گیا ہے۔ بھارتی ریاست میں ایک سکھ مجسٹریٹ کا مسلمان ملزم کے حق میں اس طرح کافیصلہ مسلم عدالتوں کے لئے ایک بھی ایک نظیر بن سکتی ہے کہ چھوٹے جرموں کے ملز موںکے لئے ایسے اصلاحی فیصلے کئے جا سکتے ہیں۔ مسلم عدالتوں میں کچھ سیاسی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے عد لتیں سوموٹونوٹس لیتی تو نظر آتی ہیں لیکن چھوٹی موٹی کارروائیوں میں نامز د ملزموں کی اصلاح کے لئے اس طرح کے فیصلے صادرنہیں ہوتے ۔ سال 2021میں ایک معروف انگریزی اخبا ر کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی تمام عدالتوں میں مجموعی طور پر 21 لاکھ 60 ہزار مقدمات زیر التوا تھے۔ حالانکہ مملکت کی عدلیہ میں مقدمات کے بیک لاگ کو کم کرنے کے لیے 2009 میں قومی عدالتی پالیسی بنائی گئی تھی۔اسے ججوں کی بحالی کی تحریک (2007-2009) کے نتیجے میں انصاف کے شعبے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے مقصد سے وضع کیا گیا تھا تاکہ انصاف کے نظام پر عوام کا اعتماد بڑھایا جا سکے۔