کالم عورتوں کے عالمی دن آٹھ مارچ کو شائع ہونا تھا سوچا کیوں نا اس بار عورتوں کے عالمی دن پر کچھ شعری انتخاب کالم کا حصہ بنائیں۔عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے کالم کا جمالیاتی احساس بھی بڑھے گا اور خواتین شاعرات کی تخلیقات کے توسط سے ان کا اظہاریہ عمومی طور پر بھی عورت کے "اظہار ذات" کی نمائندگی کرے گا۔ کچھ شاعرات کے کلام سے انتخاب کیا ہے، عورت کے احساس کی کائنات میں جھانکئے اور جانیے کہ وہ اپنی زندگی کی آدرشوں خوابوں اور نارسائیوں کی ان کہی کو کیسے زبان دے رہی ہے۔ نظم: سمجھوتہ ملائم گرم سمجھوتے کی چادر یہ چادر میں نے برسوں میں بنی ہے کہیں بھی سچ کے گْل بوٹے نہیں ہیں کسی بھی جھوٹ کا ٹانکا نہیں ہے اسی سے میں بھی تن ڈھک لوں گی اپنا اسی سے تم بھی آسودہ رہو گے اسی کو تان کر بن جائے گا گھر بچھا لیں گے تو کھل اْٹھے گا آنگن اْٹھا لیں گے تو گر جائے گی چلمن ملائم گرم سمجھوتے کی چادر زہرہ نگار تنہا سر انجمن کھڑی تھی میں اپنے وصال سے بڑی تھی وہ خود کو خدا سمجھ رہا تھا میں اپنے حضور میں کھڑی تھی مہ و ستارہ کے احساں کہاں اٹھائے گئے ہم اپنی خاک کے اندر ہی جگمگائے گئے ثمینہ راجہ۔ جیسے گم ہو گئی شناخت میری اب کوئی مجھ کو ڈھونڈتا بھی نہی مسترد بھی کبھی نہیں کرتا وہ میری بات مانتا بھی نہیں داد دیتا ہے جیتنے پہ مجھے اور کبھی مجھ سے ہارتا بھی نہیں خواب تک میرے چھین لیتا ہے اور کچھ مجھ سے مانگتا بھی نہیں یاسمین حمید تو ہوا بن کے سر بام گزرتا کیوں ہے میرے ملبوس کی عادت نہیں لہرا جانا شاہدہ حسن میرے بچے میں دعاؤں سے بھری گولک ہوں مجھے سینتی ہوئی چیزوں میں پڑارہنے دے مِیرا وعدہ ہے کہ بنجر نہیں ہونے دوں گی اپنی مٹّی میں مِرا پاؤں گڑا رہنے دے میں تِرے گھر میں لگایا گیا پتھر ہی سہی اب مجھے طاقِ زیاں میں ہی جَڑا رہنے دے زرد پڑتی ہوئی شاخوں سے لڑائی کیسی جھڑ گیا برگِ تعلق تو جھڑا رہنے دے حمیدہ شاہین یہ بھاگ دوڑ کے جو ہم زندگی گزارتے ہیں سفال جسم میں بس اک تھکن اتارتے ہیں۔ یہ مشکلات کاسیل بلا ہے چاروں طرف ہمارے جیسے تو بس ہاتھ پاؤں مارتے ہیں ثمینہ سید ہم وقت سے پہلے بھی پہنچ جائیں اگر گھر دستک سے عیاں ہوتی ہے تاخیر ہماری اس شہر میں رہتے ہیں کرائے کے مکاں میں جس شہر میں موجود ہے جاگیر ہماری ایک پھول کا تعویز بنا رکھا ہے ہم نے ہر باغ کی خوشبو ہے خبر گیر ہماری عنبرین صلاح الدین کسی سے آنکھ کسی سے نظر ملاتے ہوئے میں بجھ رہی ہوں رواداریاں نبھاتے ہوئے شہناز سازِ حیرت پر ہوا صدیوں پرانا رقص ہوں آئنہ در آئنہ برتا ہوا اِک عکس ہوں دیکھ اے چشمِ عدم! مجھ خواب کو تعبیر تک گاہے گاہے ایک سی پر بیشتر برعکس ہوں فرح رضوی جومڑ کے دیکھا وہ منظر کہاں گمان تھا تمہارے ہاتھ میں خنجر کہاں گمان میں تھا بڑے ہی شوق سے مانگیں دعائیں بیٹی کی پہ بیٹیوں کا مقدر کہاں گمان میں تھا ڈاکٹر خالدہ انور جبر سے صرف مسخر ہوا کرتا ہے وجود تو مری روح کو تسخیر نہیں کر سکتا گو مرے بعد بنا سکتا ہے تْو تاج محل گھر جسے کہیے وہ تعمیر نہیں کر سکتا شاہدہ مجید کسی لڑھکی ہوئی ساعت کے نیچے آ گئی ہوں میں ملبے میں دبی آواز ہوں اور مر رہی ہوں مرے پاؤں محبت کے بلاوے کے لیے ہیں۔ میں بھاگوں بھی تو بس دل کی دِشا میں بھاگتی ہوں ماہ ناز انجم اک شہر آرزو کو بچانا پڑا مجھے یہ زندگی تھی بوجھ اٹھانا پڑا مجھے ہر ایک شے سے آنکھ چرا کر پھر ایک دن آنگن سے دور دشت میں جانا پڑا مجھے جب اس ہوائے زرد نے مجھ پر نگاہ کی پھر اوڑھنی کا پھول چھپانا تھاپڑا مجھے گھنے جنگل کو رستہ تھر کو بادل کر رہی ہوں ادھورے عکس کو ایسے مکمل کر رہی ہوں میں دن کے آٹھ پہروں بے طرح مصروف رہتی ہوں میں اک تصویر کو کب سے مکمل کر رہی ہوں وہ سارے کام جو اب کوئی بھی کرتا نہیں ہے میں شہر رائگانی میں مسلسل کر رہی ہوں سعدیہ قریشی