آج پاکستان دوراہے پر ہے جبکہ اس کی راہ تحریک پاکستان نے متعین کر دی تھی۔یہ دوراہا نیشنلزم اور انٹرنیشنلزم کی راہداریوں سے گزرتا ہے۔نیشنلزم خطے کی اسلامی روایت کی نشاندہی کرتا ہے جبکہ انٹرنیشنلزم شکست خوردہ عالمی برطانوی طاقت کی راہ دکھاتا ہے۔یاد رہے کہ برطانیہ کی پسندیدہ قوم ہندو تھی اور ناپسندیدہ مسلمان ۔آج صورتحال یہ ہے کہ برطانیہ کا وزیر اعظم رشی سیونک بھارت کی ہندو فیملی کا فرد ہے جبکہ آزاد بھارت کا پہلا گورنر جنرل آخری وائسرائے ہن لارڈ مائونٹ بیٹن تھا۔اسی طرح امریکی نائب صدر کملا ہیرس بھی بھارت کی ہندو فیملی کی فرد ہے۔پاکستان کے خلاف بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ عرصہ دراز سے جاری ہے۔اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت علاقائی اور عالمی سیاسیات میں روس‘ امریکہ‘ اسرائیل‘ برطانیہ اور یورپ کا حلیف ہے جو جنوبی ایشیا کے امور میں سٹریٹجک شراکت دار بھی ہے۔ امریکہ عالمی اتحادی ممالک کا سردار ہے۔عالمی ادارے بھی امریکہ کے اشارہ ابرو کے مطابق چلتے ہیں جبکہ امریکہ بہادر کی ساری تیزیاں اور تیاریاں اسرائیل کو عالمی طاقت بنانے پر صرف ہوتی ہیں اور اسرائیلی عالمی استعمار کی پالیسی میں برہمن بھارت کا وہی کردار ہے جو ماضی میں برطانیہ ‘فرانس‘ یعنی یورپ‘ امریکہ و روس کا رہا ہے جنوبی ایشیا میں بھارتی بالادستی کے بغیر اسرائیلی استعمار ناممکن ہے اور بھارتی بالادستی پاکستان کی نظریاتی اسلامی شناخت کو ختم کرنے اور جغرافیائی شکست و ریخت کے بغیر ممکن نہیں۔پاکستان کے جوہری ہتھیار اور طاقتور فوج ان کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔پاک افواج ہر دم پرعزم رکھتی ہیں۔اب پاکستان کے بنیادی اداروں اور اثاثوں کو نام نہاد سیاسی جماعتوں کے ذریعے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔پاکستان کی فوج ہے تو پاکستان ہے۔ وگرنہ بھارتی اور پاکستانی مسلمانوں کی حیثیت اور نصیب ایک جیسا ہو جائے گا۔ ۔قیام پاکستان کے بعد اسلام جنوبی ایشیا میں سیاسی قوت بن کر ابھرا اب اسلام کا سیاسی نظام کے نفاذ کا معاملہ ہے تاکہ تحریک پاکستان کے مقاصد کا حصول ممکن بنے۔اب تک عالمی اتحادی طاقتیں اور ادارے مذکورہ منزل کی راہ کا روڑہ ہیں۔عالمی حلیف سرمایہ کاروں کی بدقسمتی سے ’’اپنوں‘‘ نے راہ آسان بنا رکھی ہے۔اسی اپنوں اور غیروں کی راہ نے پاکستان کو دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔جبکہ تحریک پاکستان عالمی و علاقائی قوتوں کے درمیان مزاحمت کی منزل ہے۔مفاہمت کی نہیں ہے۔سید رئیس احمد جعفری نے قائد اعظم کی تقریر(کونسل آل اندیامسلم لیگ دہلی 25فروری 1940ء کا حوالہ دیا ہے کہ ’’لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں ہمارا مطمع نظر کیا ہے؟ بات بالکل صاف ہے برطانیہ ہندوستان پر حکومت کرنا چاہتا ہے۔گاندھی جی اور کانگرس مسلمانوں اور ہندوستان دونوں پر حکومت کرنا چاہتے ہیں ہم کہتے ہیں ہم نہ برطانیہ کو مسلمانوں پر حکومت کرنے دیں گے نہ مسٹر گاندھی اور کانگرس کو‘ ہم دونوں کے اثر سے آزاد ہونا چاہتے ہیں‘‘ حیات محمد علی جناح ازرئیس احمد جعفری ناشر شیخ نذیر احمد ملک‘ کتب خانہ تاج آفس‘ محمد علی روڈ‘ بمبئی‘ سال اشاعت جون 1946ئ۔ پاکستان پہلے دن سے مزاحمت اور مفاہمت کا میدان کارزار رہا ہے۔اب یہ کھیل فائنل رائونڈ میں ہے۔اس کھیل کو جمہوریت اور آمریت کی راہداری میں کھیلا گیا ہے۔قائداعظم کے دست راست اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم قائد ملت لیاقت علی خان‘ جنرل ایوب خان‘ جنرل ضیاء الحق ‘ وزیر اعظم نواز شریف کی صف بالآخر مزاحمتی رہی ہے جبکہ ذوالفقار علی بھٹو ‘ محمد خان جونیجو جنرل پرویز مشرف ‘ بے نظیر‘ زرداری اور عمران خان مفاہمتی پالیسی کے پیرو کار ہیں۔ مفاہمتی پالیسی شکست خوردہ برطانوی و بھارتی عالمی اتحادی پالیسی کے مقاصد کی آبیاری ہے۔آج مفاہمتی پالیسی کا تسلط اس حد تک ہے کہ امریکہ نے جنرل پرویز مشرف کو عدالتی کار سازی سے رخصت کیا کیونکہ بحیثیت ادارہ فوج نے بعض مزاحمتی رویے نہ چھوڑے۔تبدیلی اور معزولی کے خوف سے پرویز مشرف نے مزاحمتی کیمپ میں ناکام پناہ لینا چاہی جو امریکہ نے لینے نہ دی اور اسے جمہوری تماشا گروں کے حوالے کر دیا۔یاد رہے کہ امریکہ نے عظیم مزاحمتی جرنیل کو نہ صرف بہاولپور فضائی سازش میں شہید کیا بلکہ ضیاء دشمنی کی آڑ میں عالمی مفاہمتی کار سازوں کو برسر اقتدار لایا۔جنہوں نے جنیوا معاہدے کے تحت افغان معاملات پر کنٹرول حاصل کیا اور پاکستان کے اندر نجکاری بالخصوص توانائی (پاور سیکٹر) کو بالواسطہ و بلاواسطہ امریکی یہودی کمپنیوں کے حوالے کر دیا گیا۔نیز پاکستانی معیشت کی آزادی کو ختم کر کے عالمی امریکی ڈالر سے جوڑ دیا اور اب عمران نیازی نے SBP کوامریکی باندی آئی ایم ایف کے حوالے کر کے پاکستانی معیشت کو مکمل طور پر امریکہ و اتحادی قوتوں کے حوالے کر دیا ہے۔نیز امریکہ نے پرویز مشرف کی جرنیلی اور صدارتی رخصتی کے وقت سرکاری طور پر اعلامیہ جاری کیا تھا کہ پاکستانی کارسازوں کو مستقبل میں امریکی پالیسی اور جمہوریت سے انحراف کی مجال نہیں ہو گی جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی 46روزہ اسیری کے وقت امریکہ بہادر جہاں کئی باتیں کیں وہاں یہ بھی کہا کہ پاکستان کے اندر امریکی و اتحادی انٹیلی جنس نیٹ ورک آپریشنل مکمل ہے۔اب ہم فوج‘ISI‘ حکومت کے علاقے میں لائے بغیر ازخود مرضی کی ہمہ جہت کارروائی کر سکتے ہیں۔نیز حسین حقانی اور منصور اعجاز کے لائے گئے بلیک واٹر کے پیشہ ور قاتل کاغذوں میں واپس چلے گئے مگر وہ ہمارے اندر مشیر اور دہشت گرد بن کر رہ رہے ہیں۔البتہ اس سارے کھیل میں ایک اہم فرد کی تبدیلی سے بہت کچھ بدل گیا اور موجودہ صورتحال میں جلد بازی ’’اہم فرد‘‘ کی تعیناتی یا تبدیلی سے زور پکڑ گئی ہے۔مزاحمت اور مفاہمت کا ڈراپ سین ہونا باقی ہے۔آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔