مکرمی ! ہم ایک ایسے معاشرہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں جو نہ خلائی ہے نہ اخلاقی ۔ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے کہ ہم بحثیت قوم گھٹیا پن میں مبتلا ہو کر نفسیاتی و سماجی بیمار افراد کا معاشرہ بن کر رہ گئے ہیں۔فہم میں،ذہن میں،اعمال اورذوق میں اور تو اور اسٹائل وفیشن میں بھی ہم واحیاتی کی تمام حدیں پار کرتے جا رہے ہیں،جس کی ایک مثال ہمارے ڈرامے اور سوشل میڈیا کے وہ تمام اکائونٹ ہولڈرز جو سستی شہرت کے لئے اپنے فالوورز بڑحانے کے چکر میں کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ آپ کے ارد گرد ایسا ماحول نہیں پنپ رہا۔ہمارا لٹریچر،شاعری،تاریخ بھی اس سے محفوظ نہیں۔حالانکہ یہ کہا جاتا ہے کہ تاریخ سے کوئی محفوظ نہیں رہتا مگر ہمارے معاشرتی حالات چند ناسوروں نے ایسی نہج پہ پہنچا دئے ہیں کہ تاریخ کو خود ان سے محفوظ کرنا پڑ رہا ہے کہ کہیں میرا چہرہ ہی مسخ کردیا جائے۔آجکل جو بھی ادب تخلیق کیا جا رہا ہے وہ خالصتا پیشہ ورانہ،غیراخلاقی اور مغرب زدہ ہے گرتی معاشرتی اقدار کا شمار ایسے ڈراموں کی شماریات سے لگایا جا سکتا ہے۔کارل مارکسنے کہا تھا’’جب نسل انسانی روٹی کی تگ ودو سے آزادی پائے گی تب ہی انسانی تاریخ کا آغاز ہوگا‘‘۔خود دوسروں کے کندھوں پر پائوں رکھ کر بام عروج پر پہنچنا چاہتے ہیں لیکن محسن کشی کرتے ہوئے اسی کا سر تن سے جدا کرنے کی سعی کرتے ہیں جن کے کندھوں پر پائوں رکھ کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔(مرادعلی شاہدؔ دوحہ)