موجودہ دور میں جمہوریت بہترین نظام حکومت سمجھا جاتا ہے۔امریکی صدر ابراہم لنکن 1861-64ء کا مقولہ ہے کہ جمہوریت کا مطلب عوامی حکومت‘ عوام کے ذریعے‘ عوام کے لئے ہے۔ابراہم لنکن نے مقامی سیاہ فام امریکی غلام عوام کے انسانی حقوق اور آزادی کے لئے مثالی کام کیا۔سرکار سازی میں غلام عوام کی جمہوری نظام کے ذریعے شرکت کو یقینی بنانے کی جدوجہد کی اور اسی دوران ابراہم لنکن کو مار دیا گیا۔برطانوی مدبر وزیر اعظم ونسٹن چرچل کا قول ہے کہ جمہوریت بدترین نظام حکومت ہے قومی مسائل اور پیچیدگیوں سے نبرد آزما ہونے کی اہلیت نہیں رکھتا۔یاد رہے کہ ونسٹن چرچل فوجی تھے اور برطانوی پارلیمان کے منتخب رکن تھے جب برطانوی جمہوری حکمرانوں نے جنگ عظیم دوم میں شکست کو نوشتہ دیوار پایا تو برطانوی مقتدر اشرافیہ نے عارضی طور پر جمہوری نظام کو ترک کیا اور پارلیمان کو معطل کر کے آمرانہ نظام قائم کیا اور ونسٹن چرچل سے درخواست کی کہ آپ اپنی حربی مہارت اور حکمت عملی کو آزادانہ طور پر جمہوری آداب اور طریق کار کو بالائے طارق رکھ کر فیصلے کریں اور جنگ جیت کر دیں۔یعنی جنگی بحران سے نکلنے کے لئے جمہوری اور پارلیمانی بلکہ صدارتی نظام بھی بری طرح ناکام رہتا ہے۔ مغرب میں جمہوری رجحانات کا آغاز میگنا کارٹا(15جون 1215ئ) سے ہوتا ہے جو بنیادی طور پر برطانیہ میں بادشاہ اور چرچ یعنی شاہی اختیارات میں مذہب کی شراکت داری سے ہوتا ہے۔میگنا کارٹا یورپ کے تاریک صدیوں اور مطلق العنان بادشاہوں کی من مانیوں کا نتیجہ تھا مگر جب برطانیہ‘ فرانس اور جرمنی کے بادشاہوں نے یورپ کو اسلام سے محروم رکھنے کی متحدہ یا اتحادی پالیسی بنائی تو چرچ کے ذریعے عوام کو اسلام مخالف مقدس جنگجو(Noble knighlhood)بنا کر صلیبی جنگوں (1292-999ء ) میں شرکت کی۔فی الحقیقت میگنا کارٹا کا اہم پس منظر بھی صلیبی جنگیں ہیں م۔یگنا کارٹا کینٹربری کے آرچ بشپ اور برطانوی بادشاہ جان کے درمیان طے پایا ۔دریں تناظر یورپ میں سیاست اور مذہب کی یکجہتی سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اتحادی محاذ بنایا گیا بعدازاں اٹلی کے سیاسی مفکر، مدبر اور سفارتکار نکولو میکیاولی 1467-1527ء نے اپنے سیاسی خیالات بعنوان شہزاہthe princeنامی کتاب 1513ء میں لکھی جو اس کی وفات کے بعد 1532ء میں شائع ہوئی۔ میکیاوتی نے سیاست میں عوامی شرکت کی اہمیت پر زور دیا اور آزادی‘ انسانیت‘ انسانی حقوق کا چرچا کیا۔ مذکورہ فکری خیالات یا انقلاب کے ذریعے انسان کی آزادی کا خواب پروان چڑھا اور بالآخر سیاست اور حکومت کے معاملات میں بادشاہ اور مذہب کا مطلق العنان گٹھ جوڑ ختم ہوا اور حکومتی نظم و ضبط اور انتظامی امور کا بندوبست کرنے کے لئے عوامی انتخابGenerel electionکے تصور نے جنم لیا۔الیکشن سے جنم لینے والی مقننہ انتظامیہ عدلیہ اور اب میڈیا کی ریگولیٹری قوت پارلیمنٹ یا پارلیمان کہلائی۔وقت کے ساتھ پارلیمان نے صدیوں پرانے رسم و رواج مذہبی اجارہ داری اور شخصی خاندانی بادشاہت کو عضو معطل بنا کر انسانی فکر و عمل کو پارلیمانی رہنما اصول بنا لیا یاد رہے کہ میکیاولی ،افلاطون‘ سقراط ‘ ‘ لیونارڈ کے سیاسی اور عوامی تصورات سے متاثر تھا افلاطون کے دور میں چھوٹی چھوٹی شہری ریاستیں City statesپائی جاتی تھی جن میں عوامی رائے کو ریاستی امور کے آئین و قانون اور انتظام پر زور دیا گیا تھا۔ میکیاولی کی سیاسی فکر نے یورپ کے عظیم سیاسی مفکرین تھا مس ہابز،روسو‘ نطشے وغیرہ کو متاثر کیا جنہوں نے یورپ میں جدید علمی فکری عوامی سیاسی و سماجی معاشی و مذہبی تحریکوں کو جنم دیا ۔ان مفکرین کے فکر و عمل نے جدیدیت Modernismجمہوریت پارلیمانی مذہبی اصلاحی تحریکی کوں کی عوام ی پرداخت کی۔ دریں تناظر یورپ میں قانون سازی کا اختیار بذریعہ عوامی رائے دہی پارلیمان کو مل گیا جس نے مذہب اور خاندانی شاہی سیاست اور سماجی رسومات کو ترک کیا اور پارلیمان کے ذریعے انسانی رائے اور انسانیت کو فوقیت دی۔ یہ الگ بات کہ عیسائی مذہب کے بانی اللہ کے حقیقی نبی حضرت عیسیٰ ؑ کی سیرت اور تعلیمات ایک مکمل ضابطہ حیات code of lifeکی صورت میں کبھی بھی موجود نہیں رہی۔ مذکورہ بالا پس منظر میں یورپی بعدازاں امریکی یعنی مغربی پارلیمان نے انسان کو بنیادی اہمیت دی اور انسانی شعور کو مذہب ‘ریاست اور سماج سے زیادہ فوقیت دی۔یہ الگ بات A1آرٹیفشل انٹیلی جنس Artificial Inteligenceیعنی روبوٹ کے تکنیکی نظام نے انسان کی ضرورت اور اہمیت کم کر دی۔ اسی طرح مغربی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے نئے مسائل کو جنم دیا مثلاً سائنسی مفروضے کہ انسان کی ابتدائی شکل بندر کی تھی بگ بینگ Big bangانسانی تخلیق اور شعور کو بے معنی حادثاتی سانحہ قرار دیا۔القصہ مغربی فکر و عمل کی ترقی نے انسانی بے وقعتی اور بے وقاری کی تحریک دی جبکہ پارلیمان انسانی حقوق آزادی رائے تحریری و زبانی اور انسانی مساوات جیسے خیالات کی حامی اور محافظ بن گئی اس طرح مغربی جمہوری پارلیمان نے یورپ اور مغرب کے روایتی نظام اور انتظام کوتلپٹ کر دیا کیونکہ عوام اور پارلیمانی کے پاس فکر و عمل کے منفی یا مثبت اقدامات اور اثرات کو جانچنے کا کوئی پیمانہ نہیں رہا۔لہٰذا مغرب میں سیاست‘ ریاست اور مذہب کی اہمیت ختم ہو گئی اور سیکولر ‘لبرل اور جدید روشن خیال مفادات Enlightened interestوغیرہ نے جنم لیا۔اس سیکولر فکر و عمل کے ہولناک اثرات کا حال یہ تھا کہ پارلیمان نے قانون سازی کے ذریعے بنیادی افرادی آزادی کی حفاظت میں انسان کو بندروں جیسی آزاد بے حیا اور ننگی سوسائٹی کا تصور دیا۔جدیدیت کے نام پر روایت کو ختم کیا عورت کو نئی نسل کی پیدائش اور پرورش سے محروم کیا ۔آزادی نسواں جیسی تحریکیں چلائی گئیں اور پارلیمان کی بالادستی کی بات کی گئی جس کے پاس برے کو بھلا اور بھلے کو برا یعنی صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح تسلیم کرنے کا اختیار مل گیا دوسو سال پہلے تک یورپ اور مغربی معاشرہ شرم حیا اور عیسائی تعلیمات کا پیروکار تھا۔مشہور انگریزی مصنف آسکروائلد کو ہم جنس پرستی پر سزا دے کر جیل بھیج دیا گیا۔ جبکہ عورتوں کی ہم جنس پرستی کا تصور بھی نہیں تھا۔آج مغرب نے پارلیمان کی بے لگام بالادستی اور آزادی کے نام پر مذہب کو چھوڑا اوربھلائی ترک کی۔مہمل تحریکوں کو پروان چڑھا۔نیز بے لگام لایعنی اور مہم قانون سازی کو عالمی اداروں مثلاً اقوام متحدہ کی سرپرستی فراہم کی انسانی حقوق اور انسانیت کے نام پر LGPTاور میرا جسم‘ میری مرضی جیسی تحریکیں چلا کر عوام کو بدترین درندگی اور فکر و عمل کی لاعلاج بیماریوں کا عادی بنایا جا رہا۔آ ج پارلیمانی بالادستی کے نام پاکستان میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے ابھی ابتدا ہے انتہاکیا ہو گی‘سوچ کر بھی روح کانپ جاتی ہے معاشرے کا مضبوط اور مثبت ہونا ریاست اور انسانیت کی تعظیم اور تحفظ ہے۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔