پاکستان کے معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر عاصم صحرائی کہا کرتے ہیں کہ مقصد میں اخلاص ‘ عزم میں استقامت اور مسائل سے آخری سانس تک لڑنے کا حوصلہ ہو تو ایک وقت آتا جب کائنات کا ہر ذرہ آپ کے راستے کے کانٹے چننا شروع کر دیتا ہے۔ زندگی تو ہر کوئی کرتا ہے مگر زندگی جیتے وہی ہیں جو دھن کے پکے ہوں جن کا مقصد نیک ہواور جن میں ہر حال میں اپنی منزل پر پہنچنے کا جنوں ہو۔ زندگی کرنے اور جینے میں فرق امجد صدیقی کی کتاب ’’درد کا سفر‘‘ پڑھنے کے بعد معلوم ہوا۔ یہ کتاب جہاں ایک شخص کے عزم وہمت کی داستان ہے تو وہاں ہمارے معاشرے کی اخلاقی پستی اور بے حسی کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ بھی۔کتاب میں ایک معذور کے عزم و ہمت صبر اور خدا پر یقین کے سامنے زمین کے خدائوں کے پیدا کردہ مسائل کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوتے محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ یہ اپنوں کی بیزاری اور غیروں کی انسان دوستی کا تذکرہ ہے۔ یہ کہانی ہے امجد صدیقی کی جو 80ء کی دہائی میں حالات کے جبر کے ہاتھوںمجبور ہو کر دیار غیر گیا۔ جس نے اللہ کے سوا کسی سے مدد کی خواہش رکھی نہ ہی امید ۔ والد کے سعودی عرب ہوتے ہوئے بھی اپنے بل بوتے پر کھڑے ہونے اور خواب سچ کرنے کا عزم کیا۔ جو روزانہ میلوں پیدل سفر کر کے درجنوں نوکری کی درخواستیں جمع کرواتا رہا اور بغیر کسی سفارش اور مدد کے باعزت نوکری پر جا بیٹھا۔ ابھی خوابوں کو سچ ہوتے بھی نہ دیکھ پایا تھا کہ قدرت نے ایک اور امتحان میں ڈال دیا۔ امجد صدیقی ایک حادثے میں معذور ہو گیا معذور بھی ایسا ہوا کہ ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے سے اس کا جسم کا تین چوتھائی حصہ مفلوج ہو گیا۔ کروٹ بدلنے کے لئے بھی کسی دوسرے کا محتاج تھا۔ اسی محتاجی سے ایک نئی کہانی جنم لیتی ہے۔ جس میں صبر، عزم اور استقامت کا مقابلہ معاشرتی بے بسی اور اپنوں کی بے زاری سے ہوتا ہے۔ امجد صدیقی کی زندگی کی خواہش اس کی موت کی دعائیں کرنے والوں پر غالب آتی ہے۔90 فیصد مفلوج جسم، جس نے اپنے عزم اور ہمت سے پوری دنیا میں اپنے وجود کو ہی تسلیم نہیں کروایا بلکہ عملی زندگی میں صحت مند اور توانا کروڑوں کو پیچھے چھوڑ گیا۔ ’’درد کا سفر‘‘ امجد صدیقی کی کامیابیوں کا ہی قصہ نہیں بلکہ معاشرتی رویوں کی کہکشاں بھی ہے جہاں ’’اپنے ‘‘ ’’حقیقی رنگ‘‘ دکھاتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کچھ غیروں کے انسان دوست رویے کے خوبصورت کہکشاں آسمان کو چھوتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔ ’’درد کا سفر‘‘ میں امجد صدیقی کے ہمسفر سعودی عرب میں اس کے اچھے وقت کے اپنے ہیں جو معذور امجد کی عیادت کرنے کے بجائے اس کو زندہ لاش سمجھ کر فون تک سننا گوارا نہیں کرتے تو دوسری طرف ڈاکٹر ورنا ایبلز ہیں جن کی محبت اور خلوص کی وجہ سے اس کے چہرے میں امجد صدیقی کواپنی ماں نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر گڈ ول ہیں جو اس میں جینے کی امنگ بھرتے ہیں۔ درد کے اس سفر میں امجد صدیقی کا جہاںواسطہ لندن میں اس کے ایسے اپنوں سے پڑتا ہے کہ اس کو 25 سیڑھیاں اپنے نیم مردہ جسم کو گھسیٹتے ہوئے چڑھنا پڑتی ہیں اور شکایت کے خوف سے اس کے اپنے عمارت کی لفٹ ٹھیک کروانے سے انکار کر دیتے ہیں تو دوسری طرف امجد کی کچھ بھی نہ لگنے والی دو غیر مسلم گوریاں کیرولین اور این caroline اورann ہیںجوامجد صدیقی کی ویل چیئر کو گھسیٹ کر اس کے چچا کے گھر چوتھے فلور پر لے جاتی ہیں ، ایک اس کی چاچی ہیںجو معذور کو دس منٹ تک اپنے گھر کے دروازے کے اندر نہیں جانے دیتیں اور کہتی ہیں تم یہاں کیوں آئے ہو۔ لندن کے بحالی معذوراں سنٹر کے ڈاکٹر گڈول جو امجد کی زندگی اور بہتری کے لئے اس کے رشتہ داروں کی مخالفت اور بدتہذیبی کے باوجود اس کیلئے لندن میں گھر اور امیگریشن کے جتن کر رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف اس کے اپنے ہیں جو پاسپورٹ قبضہ میں کرنے میں جتے ہیں۔ درد کا سفر ایک معذور کی جینے کی خواہش اور کامیابی کے لئے مشکل سے مشکل حالات میں سخت محنت اور عزم کی ہی کہانی ہی نہیں بلکہ معاشرتی رویوں اور انسانی دوستی کے حوالے سے تہذیب اور تربیت کا تقابل بھی ہے۔ امجد صدیقی کا اپنوں کی بے اعتنائی اور بے زاری کے بعد ہمدردی اور محبت سے پیش آنے والی ورنا ایبلز کو ماما کہنا فطری بات ہے۔ اسے تو ورنا کی محبت میں ماں کا چہرہ دکھائی دیتا تھا مگر ڈاکٹر ورنا کا امجد صدیقی جیسے معذور کو بیٹا مان لینا اور تین چوتھائی مفلوج جسم سے بیٹی سے شادی کی خواہش رکھنا جسم کے بجائے روح سے محبت کی زندہ مثال ہے۔ ورنا کو امجد صدیقی کا فرشتہ ماننا اس لئے درست ہے کہ امجد کے لئے ورنا ایک واحد محبت اور پیار کرنے والی شخصیت تھی مگر ورنا کی زندگی میں تو ایسے سینکڑوں امجد تھے جو معذور تھے وہ ان سے بھی اسی طرح محبت اور خلوص سے بات کرتیں اور ان میں زندگی کی رمق پیدا کرنے کے لئے اسی پیشہ وارانہ محبت اور خلوص سے کام کرتیں تھیں۔ امجد کو ڈاکٹر گڈول کیرولین اور این کا اپنی زندگی میںامید کی کرن ہونے کی وجہ سے فرشتے محسوس ہونا قدرتی امر ہے مگر ڈاکٹر گڈول کیرولین این اور کیتھی کا انسان دوست رویہ اور معذور افراد سے محبت کی وجہ صرف امجد نہیں ہو سکتا ان کی زندگی میں ہزاروں امجد آتے ہوں گے اور وہ ہر کسی کی ایسی ہی دیانتداری محبت اور خلوص سے مدد کرتے ہوں گے۔ ورنا، کیرولین ،این ،ڈاکٹر گڈول اور کیتھرین کا اپنے مریضوں سے سلوک اس درد کے سفر کی کہانی کا روشن باب ہے۔ ایک ہم ہیں جو کلمہ گو ہو کر ایک معذور کو ویل چیئر کے ساتھ خانہ خدا میں حاضری سے ہی نہیں روکتے بلکہ خانہ خدا میں بھی اس بے بس کو حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں اور خدا کا خوف نہیں کرتے ۔ دوسری طرف ایسے ہیں جو اپنے پیشے کو عبادت سمجھتے ہیں جن کی نظر میں 90 فیصد مردہ جسم بھی زندہ انسان اور انسان دوست رویہ کا حق دار ہے۔(جاری ہے)