یوم تکبیر تحریک پاکستان کے مقاصد کی تکمیل ہے۔قائد اعظم نے کئی بار کہا کہ مجھے آزاد اسلامی ریاست چاہیے خواہ یہ ریاست ایک آزاد ضلع ہی کو مشتمل ہو۔تحریک پاکستان کے معروف موّرخ اور محقق پروفیسر محمد منور اپنی کتاب بعنوان’’پاکستان۔حصارِ اسلام‘‘میں لکھتے ہیں کہ 3جون 1947ء کے تقسیم ہند پلان کے بعد قائد اعظم اور مولانا ابوالکلام آزاد کے درمیان مسلم لیگی راہنما سید بدرالدین کے گھر کلکتہ میں ملاقات ہوئی مولانا صاحب نے قائد اعظم سے پوچھا کہ جو اور جس طرح کا پاکستان آپ نے قبول کر لیا ہیِ اس کے ساتھ ہندوستان کے مسلمان بھی تین حصوں میں بٹ جائیں گے۔قائد اعظم نے فرمایا: اس وقت میں نے ایک قلعہ مسلمانوں کو لے دیا ہے، جہاں وہ اپنی قوتیں مجتمع کریں اور اپنی اہلیتوں سے کام لے کر اپنے شاندار ماضی کا احیاء کر لیں، مجھے جو کام کرنا تھا میں نے کر دیا۔ مولانا آزاد نے قائد اعظم کے یہ الفاظ سنے تو اٹھ کھڑے ہوئے اور انہیں گلے لگا لیا اور مولانا کا رویہ بدل گیا۔ پاکستان خطے میں روشن اسلامی روایات کا امین اور ترجمان بھی ہے، تحریک پاکستان کا عوامی نعرہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ ہے، تحریک پاکستان کی بنیاد اللہ کی وحدانیت اور تکمیل اللہ کی کبریائی ہے، پاکستان نے خطے کے مسلمانوں کو ایمان‘ اتحاد‘ تنظیم سے نوازا اور وقت نے پاکستان کو جوہری جہادی اور ایمانی قوت بنا دیا، قیام پاکستان کے دن سے عالمی اتحادی طاقتیں اسے زیر کرنا چاہتی ہیں، مگر خود ڈھیر ہو کر رہ جاتی ہیں۔ یوم تکبیر نے قوم کو ہمت حوصلہ اور جرات اور دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا پاکستان کا بننا ایک معجزہ ہے اور قائم رہنا مذکورہ معجزے سے بھی بڑا کام ہے، پاکستان کی جوہری قوت و صلاحیت نے ہمیشہ دشمن کو ارض پاک سے دور رکھا ہے، بدقسمتی عوام الناس جوہری افادیت سے نآشنا ہیں جبکہ دشمن یا عالمی و علاقائی قوتیں پاکستان کی جوہری اہمیت سے بخوبی آشنا ہیں، کیونکہ جوہری قوت ہی دشمن کے مذموم عزائم میں سدراہ ہے ۔آج پاکستان محفوظ ہے تو فقط جوہری صلاحیت کے باعث ہے، پاکستان جوہری قوت کب اور کیسے بنا اور پاک بھارت تعلقات میں جوہری صلاحیت کیسے کارفرما رہی ہے، اس پہلو کا قدرے تفصیل سے ذکر درج ہے، پاک بھارت جوہر سازی کا آغاز تقسیم ہند کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا، وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو جوہری قوت بننے کا بہت شوق تھا، وہ بھارت کے پہلے جوہری سائنسدان ایچ جے بھابھا (H.J. Bhabha) کو کلی اختیار دے کر ہمہ وقت رابطے میں رہتا تھا مگر بھارت کو جوہری قوت ایک مسلمان جوہری سائنسدان عبدالکلام نے بنایا جبکہ یونس خان نامی شخص نے جوہری پرزہ جات سمگل کر کے بھارت پہنچائے تھے۔ یونس خان نہرو فیملی کے اتنا قریب تھا کہ اندرا گاندھی کی شادی کی تقریبات میں یونس خان کا گھر بھی برابر کا شریک تھا، مگر یونس خان نے لمبی عمر پائی اورغربت بے بسی اور کسمپرسی میں وفات پائی۔پاکستان میں جوہر سازی کی تحقیق (ریسرچ) کا آغاز شہید ملت وزیر اعظم لیاقت علی خان نے کیا تھا اور صدر جنرل ایوب خان نے پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہورکے ڈاکٹر نذیر احمد کی انتظامی نگرانی میں جوہر سازی کے لئے پہلی بھر پور فزکس لیبارٹری قائم کی۔ موجودہ جوہر سازی کی دوڑ سقوط ڈھاکہ (6دسمبر 1971) سے شروع ہوئی اور افغان جہاد کے تناظر میں کامیابی کی حتمی صورت اختیار کر لی افغان جہاد نے پاکستان کو جوہری جہادی اور نظریاتی استحکام بخشا، امریکہ اور عالمی ادارے روس کی افغانستان پر فوجی یلغار کے خلاف جنرل ضیاء الحق کے اصولی اخلاقی انسانی اور مزاحمتی جدوجہد میں شمولیت کے خواہاں تھے، دریں تناظر سب کو پاکستان کی ضرورت تھی اور پاکستان‘ بھارتی و عالمی ذرائع کے مطابق 1979ء تا 1982ء جوہری قوت بن چکا تھا، چاغی کی کھدائی ضیاء الحق کے دور میں ہوئی ۔ ضیاء الحق کے دور میں ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں سب سے زیادہ اسلحہ پاکستان کا فروخت ہوتا تھا، سیٹلائٹ اور گائیڈڈ میزائل کی نت نئی ریس میں بھی پاکستان سرخیل تھا، پاکستان کا جوہری قوت بننا اللہ کے خاص کرم کا نتیجہ ہے ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی ٹیم کے تکنیکی نگراں نے راقم کو بتایا کہ عام طور پر اگر ہم ایک پرزہ غلط بناتے تو اگلی بار درست بن جاتا تھا، ہم نے ایک پرزہ چار پانچ بنایا اور ہر بار غلط بنایا، اس پر اداس یا مایوس نہیں ہوئے۔ ظہر کی نماز باجماعت مسجد میں پڑھی، اللہ تعالیٰ سے مزید مدد مانگی اور دعا کے دوران جیتی جاگتی آنکھوں کو مذکورہ پرزہ دکھایا گیا اور پرزہ جات کی درست حالت دکھائی گئی اور وہ پرزہ بن گیا۔ چاغی کے جوہری تجربات کو جانچنے کے لئے بلوچستان ایران اور اردگرد مختلف عالمی این جی اوز کے ارضیائی آلات نصب تھے، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ عین دھماکوں کے وقت زلزلہ آیا اور آلات نے فقط زلزلہ ریکارڈ کیا، باقی سب کچھ رہ گیا ،اسی طرح چاغی کے قریب دوسرا جوہری قسم کا تجربہ کرنا تھا یہ زیر زمین کرنا تھا، زمین کی کھدائی مطلوبہ میٹرز(گز) سے خاصی کمی تھی مگر عالمی چہ میگوئیوں سے بچنے کے لئے تجربہ کیا تجربے کے بعد آسمان پر چھتری بنی اور اس وقت تیز آندھی چلی اور جوہری چھتری کا رخ سمندر (بحر عرب) کی جانب ہوا اور جلد غائب ہو گیا۔ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کا فال آئوٹ مطلوبہ متعین حدود تک محدود رہتا ہے۔ یہ بھوپال ‘ بھارتی تھرپارکر یا ناگاساکی اور ہیرو شیما کی طرح لامحدود اثرات کا حامل نہیں۔نیز ضیاء الحق دور سے تاحال پاکستان کی جوہری وقت نے فعال کردار ادا کیا ہے۔ افغان جہاد کے دوران روسی بمباری جہازوں کو گرائونڈ کرنا عملے کو قیدی بنانا بھارتی براس ٹیک جنگی یلغار کا جوہری جواب ضیاء الحق کی کرکٹ ڈپلومیسی میں دیا گیا اور بھارتی بریگیڈیئر رکھی نے کتاب بعنوان جنگ جو لڑی نہ جا سکی لکھی اور کہا کہ جنرل ضیاء الحق نے جوہری دھمکی سے جنگ جیت لی اور بھارت کا اربوں روپیہ کا نقصان ہوا۔ نئے ٹیکس لگانا پڑے اور عالمی برادری میں سبکی ہوئی بے شک ہتھیار اہم ہے اور اس کا نام بھی کام سے زیادہ اہم ہے اگ خطہ تاحال جنگ سے بچا ہوا ہے تو فقط پاکستان کی جوہری صلاحیت کے سبب ہے بقول شاعر ساماں کے ساتھ دولت ایماں بھی چاہیے بے فائدہ ہے دست قوی دل ہو گر ضعیف