ہماری زندگیوں میں انتشار، مایوسی ،نفرت اور کرپشن روز مرہ کا معمول بن چکی ہے یہ تنزلی بتدریج آئی ہے چار دہائیوں سے زیادہ وقت گزر گیا ، ایک عامل صحافی کے طور پر نہ جانے کتنے ڈرامائی واقعات آپ کی آنکھوں کے سامنے سے گزرتے اور کتنی حکومتیں اور کتنے نظام بدلتے دیکھے۔یہ پوری داستان ہے ۔ذرا مڑ کر گزرے دنوں میں تاریخ کے صفحات پلٹ کو دیکھئے 17اکتوبر 1958ء کو ایک سابق فوجی میجر جنرل اسکندر مرزا نے آرمی چیف ایوب خان سے مل کر پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا حکومت کو برطرف کر دیا گیا آئین کو منسوخ اور ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔21دن بعد ایوب خان نے اسکندر مرزا کو چلتا کیا اور خود صدر بن گئے۔صدر ایوب خان 1962ء میں مارشل لاء اٹھایا اور ایک نیا آئین متعارف کرا دیا۔ افسوس کہ اس میںتمام غیر جمہوری شقیں شامل تھیں خصوصاً برابری کا اصول اور مغربی پاکستان کی وحدت یعنی ون یونٹ۔ ایوب خان کے دور میں پاکستان نے اتنی زیادہ اقتصادی ترقی کی جتنی پہلے کبھی نہیں کی تھیلیکن اس کے ثمرات عوام تک اتنے نہیں پہنچے جتنے پہنچنے چاہئیں تھے ۔اس کیدور میں دولت چند نئے صنعت کاروں کے ہاتھوں میں جمع ہو گئی ۔شروع میں یہ بیس خاندان تھے بعد میں بائیس ہو گئے اورپھر ایوب خان اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے پے درپے غلطیاں کرتے چلے گئے۔ 70ء کے انتخابات سے قبل بھٹو صاحب نے اپنے مربی ایوب خان کو چیلنج کرتے ہوئے جس پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی وہ انتخابات میں ملک کے مغربی حصے میں سنگل لارجسٹ پارٹی کی حیثیت سے فتحیاب ہوئی۔ اس کے باوجود عوامی لیگ کے اکثریت میں ہونے کا مطلب یہ تھا کہ وہ ایک ایسا آئین بنا سکتی تھی جو انہیں صوبائی خود مختاری کا حق دیتا۔لیکن یہ بات مغربی پاکستان کے مراعات یافتہ طبقے کے لئے ناقابل قبول تھی۔یوں تو یحییٰ خان کے غلط فیصلوں ،بھٹو صاحب کی حکمت عملی اور کردار پر ہم 50سال سے بحث کر رہے ہیں ۔میرے خیال میں شیخ مجیب الرحمن نے بھی مغربی پاکستان کے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی اس طرح کی کوشش نہیں کی جس طرح وہ کر سکتے تھے۔ انہیں مغربی پاکستان کے لوگوں کو یہ بتانا چاہیے تھا کہ اقتدار میں آ کر وہ کسی سے کوئی ایسی زیادتی نہیں کریں گے کیونکہ ان سے بہتر طور پر کون جان سکتا تھا کہ مغربی پاکستان کی برسر اقتدار اشرافیہ کے رویوں کے سبب ملک کے مشرقی حصے کے لوگوں میں کس طرح احساس محرومی پیدا ہو۔ اگروہ یہ کہنے کے بجائے کہ انہیں اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی ہے، یہ کہتے کہ وہ کراچی، اسلام آباد اور لاہور کی ترقی کے لئے وہ سب کچھ کریں گے جو وہ ڈھاکہ‘ چاٹگام اور نواکھالی کے لئے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو بہتر ہوتا لیکن یہ تو بس تاریخ کا ایسا تکلیف دہ باب ہے جو ہمیشہ ہماری قیادت کے تدبر کو منہ چڑاتا رہے گا ۔سقوط مشرقی پاکستان یقینا ایک ایسا سانحہ تھا جس نے ہماری قومی وحدت کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ یہ 70ء کے انتخابات سے قبل کا واقعہ ہے کہ بھٹو صاحب ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرنے سندھ کے علاقے سانگھڑ پہنچے۔ اس علاقہ میں پیر پگاڑا کا بڑا اثرورسوخ تھا۔یہاں بھٹو کے قافلے پر فائرنگ کی گئی۔ ان کے جانثاروں نے بمشکل ان کی جان بچائی۔ بھٹو صاحب نے یہاں سے سانگھڑ حیدر آباد میں جناب تالپور کی رہائش گاہ کے سبزہ زار پر انتہائی جذباتی انداز میں پیر صاحب پگاڑا کو چیلنج کیا کہ ان کے مرید اس قاتلانہ حملے کے ذمہ دار ہیں۔پیر صاحب پگاڑا پاکستانی سیاست میں ہمیشہ ایک بلند قامت شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ایوب خان کے دورکے آخری موڑ پر جب پیر پگاڑا حزب مخالف کے لیڈر کے طور پر راولپنڈی میںتھے توحکومت کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ وہ انہیں گرفتار کر سکے۔ ضیاء الحق کے دور میںیہی پیر پگاڑا ملک کی سب سے زیادہ طاقتور شخصیت مانے جاتے تھے۔1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی اسمبلی کے نتیجے میں جب وزیر اعظم کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو ضیاء الحق نے فیصلے کا اختیار پیر صاحب پگاڑا کو دیدیا تھا اور انہوں نے اپنا فیصلہ الٰہی بخش سومرو کی بجائے محمد خان جونیجو کے حق میں دیا تھا۔ سندھڑی سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم جونیجو نے اپنے پہلے پارلیمانی خطاب میں پوری جرأت سے یہ اعلان کیا کہ جمہوریت اور آمریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ایوب خان کے دور میں ریلوے کے وزیر رہنے والے انتہائی خاموش طبع محمد خان جونیجو پاکستانی تاریخ کے ان چند وزرائے اعظم کی صف میں شامل کئے جا سکتے ہیں جنہوں نے اچھی کارکردگی اور ایمانداری کی بے شمار مثالیں قائم کیں۔انہوں نے ڈگریاں ہاتھ میں تھامے بے شمار نوجوانوں کے لئے ملازمتوں کے مواقع پیدا کئے۔ انہوں نے بیورو کریسی کو 1000سی سی گاڑیوں میں بٹھا دیا ۔ محمد خان جونیجو سے ہماری بھی بڑی یاداللہ تھی۔ وہ بڑے وضعدار اور شائستہ انسان تھے۔جب ضیاء الحق نے انہیں وزارت عظمیٰ سے فارغ کیاتو ان کی برطرفی کے اگلے دن جب میں نے ان کی رہائش گاہ واقع کے ڈی اے اسکیم ون میں جا کر ان سے پوچھا کہ آخر اچانک یہ سب کچھ کیا ہو گیا؟دبلے پتلے دراز قد سابق وزیر اعظم نے کہا۔ بابا چھوڑو کس بحث میں پڑ گئے ۔ضیاء الحق کو بہت جلد احساس ہو جائے گا کہ اس نے غلط فیصلہ کیا .دلچسپ بات دیکھیں کہ مئی 1986ء میں جونیجو کو برطرف کرنے کے بعد اگست 1988میں لال کمال بستی میں سی ون 30کے المناک حادثے سے قبل ضیاء الحق فیصلہ کرنے والے تھے کہ نئے انتخابات سے بہتر ہے جونیجو حکومت کو بحال کردیا جائے۔گزرے دنوں کو یاد کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم گزرے حالات اور تاریخ سے سبق سیکھیں۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔9مئی کے واقعات کے بعد حالات نے جس طرح کروٹ بدلی ہے کئی سوالات سر اٹھا رہے ہیں سوچنے کا مقام یہ ہے کہ اہل سیاست اس سفر میں کمزور ہوئے یا توانا۔ انہوں نے اپنے فیصلوں سے سماج ملک اور سیاست کو کیا دیا۔عمران خان خود کو ہر کمزوری سے مبرا اور بے نیاز سمجھ رہے ہیں ۔قانون نے انہیں پہلی بار نظر بھر کر دیکھا ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ وہ خود اپنے ہی دام میں پھنستے جا رہے ہیں اور زمینی حقائق اور معروضی حالات کو جانچنے بغیر جھٹ بیان داغ دیتے ہیں۔ میرے خیال میں انہوں نے پکی پکائی دیگ ریت پر الٹ دی ہے۔اس سلگتے ماحول میں جبکہ ان کی پارٹی ملبے کا ڈھیر بنتی جا رہی ہے وہ دو قدم پیچھے ہٹ جائیں۔سوچیں غلطی کہاں ہوئی اس کا اعتراف کر لیں۔ ایک میز پر سب بیٹھ جائیں ۔امکانات کے بجائے خدشات اندیشے اور بڑھتی ہوئی مایوسی کوئی ایسا دن کوئی ایسی تدبیر جو اس بھڑکتی آگ پر پانی کے چند قطرے ڈال سکے۔یہ ہم سب کا ملک ہے کوئی نہ کوئی راستہ تو ہو گا۔ذرا سوچیں۔