پاکستان ایک قانونی جدوجہد اور جمہوری طریقے کے ذریعے معرضِ وجود میں آیا ہے۔ 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کی سب نشستیں اور مسلم اکثریتی صوبوں میں اکثر نشستیں حاصل کرکے ثابت کردیا تھا کہ برصغیر کے مسلمان صرف آزادی ہی نہیں، بلکہ مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل الگ وطن پاکستان بھی چاہتے ہیں۔ انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے بعد ہماری آئین ساز اسمبلی نے پاکستان کے آئین پر طویل مباحثہ کیا تو اس مباحثے کا ایک بنیادی سوال پاکستان پر حقِ حکمرانی کے متعلق تھا۔12 مارچ 1949ء کو آئین ساز اسمبلی نے "قراردادِ مقاصد" منظور کرکے اس سوال کا جواب دے دیا۔ اس قرارداد نے پاکستان کے آئینی بندوبست کے بنیادی خدّ و خال طے کرلیے اور اسے بعد میں ہمارے آئین کے دیباچے کی حیثیت دی گئی۔ 1985ء میں آئین میں دفعہ 2اے کا اضافہ کرکے اس قرارداد میں مذکور اصولوں کو آئین کا مؤثر حصہ بنا دیا گیا۔ فوجی عدالتوں کے قیام کیلئے آئین میں کی گئی 21 ویں ترمیم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ ہمارے آئین کا دیباچہ کسی انگریزی قانون کے دیباچے کی طرح محض بھرتی کی چیز نہیں ہے، بلکہ ہمارے آئینی نظام میں اسے وہی حیثیت حاصل ہے جو امریکی نظام میں "اعلانِ آزادی" کو حاصل ہے، یعنی جس طرح امریکی آئین کی تعبیر و تشریح کرتے ہوئے امریکی سپریم کورٹ ان بنیادی اصولوں کو مدّ نظر رکھتی ہے جو اعلانِ آزادی میں مذکور ہیں، اسی طرح ہم پر لازم ہے کہ پاکستان کے آئین کی تعبیر و تشریح ان اصولوں کی روشنی میں کریں جو قراردادِ مقاصد میں طے کیے گئے ہیں۔ اس قرارداد میں سب سے بنیادی اصول یہ ذکر کیا گیا ہے کہ پوری کائنات پر حاکمیتِ اعلی بلا شرکتِ غیرے اللہ تعالیٰ کی ہے اور پاکستان کے نظام میں ریاست اپنے اختیارات جمہور کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے اندر ایک مقدس امانت کے طور پر استعمال کرے گی۔ اس اصول کی بنیاد پر عاصمہ جیلانی کیس (1972ء ) میں سپریم کورٹ نے مارشل لا کو ناجائز قرار دیا تھا کیونکہ مارشل لا "جمہور کے منتخب کردہ نمائندوں" کی حکومت نہیں ہوتی۔ اس اصول کو ہمارے آئینی و قانونی نظام میں بہت تفصیل سے برتا گیا ہے اور یہ یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جمہور کے منتخب نمائندوں کے سوا کسی کو حکومت کا موقع مل ہی نہ سکے۔ اس سلسلے میں دو باتیں بہت اہم ہیں: ایک یہ کہ آئین میں انتخابات کے انعقاد کیلئے مدت کی باقاعدہ تصریح کی گئی ہے اور دوسری یہ کہ اس عبوری مدت کیلئے قائم کی جانے والی "نگران حکومت" کے پاس صرف اتنا ہی اختیار ہو کہ وہ روز مرہ معمول کا کاروبارِ حکومت چلاسکے۔ ان دونوں نکات کی کچھ تفصیل ضروری ہے۔ وفاقی مقننہ، یعنی پارلیمان، دو ایوانوں پر مشتمل ہے جن میں ایوانِ بالا تو مستقل موجود رہتا ہے اور اسے تحلیل نہیں کیا جاسکتا، البتہ اس کے ارکان کی مدتِ رکنیت کی تصریح دفعہ 59 میں کی گئی ہے اور جتنی نشستیں خالی ہوتی ہیں ان پر متعلقہ طریقِ کار کے مطابق مقررہ مدت میں نئے سینیٹروں کا انتخاب ہوجاتا ہے۔ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے 5 سال کی مدت مقرر کی گئی ہے اور انھیں وقت سے قبل بھی تحلیل کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ ان کے متعلق دو امکانات ہوتے ہیں: یا تو یہ مدت پوری کریں، یا مدت سے پہلے ان کی تحلیل ہو۔ ہر دو صورتوں میں ان اسمبلیوں کے انتخابات کیلئے مدت کا تعین آئین کی دفعہ 224 میں کی گیا ہے۔ چنانچہ مدت پوری کرنے کی صورت میں نئے انتخابات کیلئے زیادہ سے زیادہ 60 دن اور مدت سے پہلے تحلیل کی صورت میں نئے انتخابات کیلئے زیادہ سے زیادہ 90 دن کی مدت مقرر کی گئی ہے۔ بعض لوگوں کو وہم ہوا ہے کہ آئین کی دفعہ 254 نے مقررہ مدت سے انحراف کی گنجائش دی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ دفعہ 254 کا یہ کہنا ہے کہ اگر کوئی کام باقی تمام قانونی شرائط پوری کرکے کیا گیا ہو، تو اسے صرف اس بنا پر ناجائز نہیں کہا جاسکے گا کہ وہ مقررہ مدت کے بعد ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ قصداً معیاد سے انحراف کیا جائے، بلکہ یہ ہے کہ معیاد سے انحراف ہوگیا لیکن باقی امور ٹھیک ہیں، تو صرف معیاد سے انحراف کی بنیاد پر اسے غلط نہیں کہا جائے گا۔ انحراف کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ضرورت الگ سے موجود ہے۔چنانچہ سپریم کورٹ محمد سبطین خان بنام الیکشن کمیشن (2023ئ) میں صراحت کے ساتھ قرار دے چکی ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل یا مدت پوری ہونے پر، ہر دو صورتوں میں آئین کی دفعہ 224 میں مذکور مدت کے اندر انتخابات کا انعقاد ایک ایسا فریضہ ہے جس سے روگردانی ممکن نہیں ہے۔چونکہ انتخابات کے انعقاد کیلئے آئین نے الیکشن کمیشن کو اختیارات دیے ہیں، اس لیے بعض لوگوں کو وہم ہوا ہے کہ الیکشن کب کرائے جائیں، یہ فیصلہ الیکشن کمیشن کی مرضی کا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے مذکورہ مقدمے میں اس کی بھی تصحیح کی ہے اور قرار دیا ہے کہ آئین کی دفعہ 224 میں مقررہ مدت کے اندر انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کا "آئینی فریضہ" ہے اور اسے جتنے بھی اختیارات دیے گئے ہیں وہ اس کا "استحقاق" نہیں، بلکہ وہ اختیارات اسی فریضے کی ادائیگی کیلئے ہیں۔ جہاں تک "نگران حکومت" کا سوال ہے، تو اس کیلئے بھی ایک تو یہ اصول یاد رکھنے کا ہے کہ حکومت عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے ایک مخصوص کام کو ایک مخصوص مدت میں سرانجام دینے کیلئے وجود میں لائی جاتی ہے۔ دوسرا اہم اصول، جس کی تصریح آئین کی دفعہ 4 میں کی گئی ہے، یہ ہے کسی بھی شخص یا ادارے کے پاس صرف وہی اختیار ہے جو آئین یا قانون نے اسے دیا ہے۔چنانچہ نگران حکومت کے پاس بس وہی اختیارات ہیں جو آئین یا قانون نے اسے دیے ہیں اور اس کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے جو آئین یا قانون نے اسے نہیں دیا، بالخصوص جس سے آئین یا قانون نے اسے روکا ہو۔ مثلاً الیکشن ایکٹ 2018ء کی دفعہ 230 کی رو سے نگران حکومت صرف اس عبوری مدت کیلئے، جو آئین کی رو سے انتخابات کیلئے مقرر کی گئی ہے،روز مرہ کے معمول کے فیصلوں کا اختیار رکھتی ہے اور کسی اہم پالیسی پر فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ نیز یہ بھی تصریح کی گئی ہے کہ نگران حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ آئین کی مقررہ مدت کے اندر انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن کی مدد کرے۔ نیز یہ کہ نگران حکومت متنازعہ امور میں پڑنے سے خود کو روکے گی اور صرف وہی فیصلے کرے گی جو فوری نوعیت کے ہوں اور جنھیں واپس کرنا مستقبل کی حکومت کیلئے ممکن ہو۔ آخری بات۔ آئین کی دفعہ 220 کی رو سے وفاق اور صوبوں میں تمام انتظامی اداروں کا فریضہ ہے کہ مقررہ مدت کے اندر انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کیلئے الیکشن کمیشن کو ہر ممکن مدد فراہم کریں۔