(ن) لیگ کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے گزشتہ روز شجاع آباد میں یوتھ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے عوام کا شکریہ ادا کیا اور اُن کے خطاب کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی تقریر میں عالمی شہرت یافتہ سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی کی شاعری کی بہت تعریف کی اور کہا کہ مجھے شاکر شجاع آبادی کی شاعری اور سرائیکی زبان بہت اچھی لگتی ہے۔ ایک بات یہ بھی تھی کہ محترمہ مریم نواز نے تقریر کا آغاز بھی سرائیکی زبان سے کیا اور اختتام بھی سرائیکی زبان میں۔ جس پر سامعین نے پرجوش نعرے بازی کی۔ شجاع آباد کے جلسے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وقت اور حالات بدلنے پر (ن) لیگ کے رہنما بڑے قافلے لیکر جلسہ گاہ پہنچے جس کی بناء پر یہ بہت بڑا جلسہ بن گیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ مریم نواز نے وسیب کی ترقی یا صوبے کا کوئی ذکر نہ کیا البتہ ان کا سیاسی خطاب پر جوش تھا۔ جس میں انہوں نے کہا کہ فوج کے خلاف بغاوت کرنے والا اپنے انجام کو پہنچ گیا اورجماعت جس جہاز میں بنی تھی اسی جہاز میں واپس چلی گئی۔ 26 سال میں بننے والی جماعت 26 منٹ میں ریزہ ریزہ ہو گئی۔ مریم نواز نے شجاع آباد کے حوالے سے کہا کہ میں پہلی بار شجاع آباد آئی ہوں۔ 12 اکتوبر 1999ء کو منتخب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف شجاع آباد آئے تھے تو واپسی پر اُن کا تختہ الٹ دیا گیا۔ مریم نواز کی طرف سے 12 اکتوبر کا حوالہ اہمیت کا حامل ہے۔ 12 اکتوبر 1999ء تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ آج کے کالم میں ہم 12 اکتوبر 1999ء کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں کہ چاہے آج کے حالات کی 12 اکتوبر سے مطابقت نہ بھی ہو مگر ماضی کو حال سے اور حال کو مستقبل سے کبھی جدا نہیں کیا جاسکتا کہ یہ وقت کا ایسا پہیہ ہے جو مسلسل چلتا رہتا ہے۔ 12 اکتوبر 1999ء کے حالات کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ محمد نواز شریف کی منتخب حکومت کا خاتمہ کر کے جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو ملک میں ایمرجینسی نافذ کی، وزیراعظم ہائوس میں محمد نواز شریف کے پاس چند جرنیل گئے اور اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے کاغذ پر دستخط کرنے کو کہا۔ انہیں کچھ رعایتیں دینے کی پیشکش کی گئی، لیکن محمد نواز شریف نے اسمبلیوں کو تحلیل کرنے سے صاف انکار کردیا اور جب ان پر دبائو ڈالا گیا تو انہوں نے عسکری قیادت کو واضح الفاظ میں کہا کہ کسی صورت اسمبلیوں کو نہیں توڑوں گا۔ اس انکار کے بعد محمد نوازشریف اور ان کے اہل خانہ کو نظر بند کر دیا گیا اور ان پر پرویز مشرف کے ہوائی جہاز کی ہائی جیکنگ کا مقدمہ درج کرا دیا گیا۔انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے ذریعے انہیں عمر قید کی سزاسنائی گئی۔12اکتوبر 1999ء کو اس وقت کے وزیراعظم محمد نوازشریف نے آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے جنرل پرویزمشرف کو چیف آف دی آرمی سٹاف کے منصب سے برطرف کر کے ان کی جگہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف تعینات کردیا تھا۔اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے پرویز مشرف کے ماوراء آئین اقدامات کے خلاف سید ظفرعلی شاہ کی آئینی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے مشرف آمریت کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا اور پرویز مشرف کو پارلیمینٹ کے بغیر ہی آئین میں ترامیم کا اختیار بھی دے دیا، جبکہ پرویز مشرف کے وکلاء کی جانب سے ایسی کوئی استدعا بھی نہیں کی گئی تھی۔پرویز مشرف ملک کے چیف ایگزیکٹیو بن گئے پہلے احتساب پھر انتخاب کا نعرہ لگایااور قوم کے سامنے اپنا سات نکاتی ایجنڈا پیش کیا، لیکن آٹھ سال اقتدار میں رہنے کے باوجود سات نکاتی ایجنڈے پر عمل نہیں کیا۔ احتساب کے نام پر اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنایااور نیب کے ادارے کو سیاسی مقاصد کے حصول اور اپنے مخالفین کو دبانے وہراساں کرنے کے لئے خوب استعمال کیا۔ جنرل مشرف کا 12اکتوبر کا ٹیک آوور پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھاجب وزیراعظم محمد نواز شریف نے انڈیا کے ساتھ مذاکرات شروع کئے اور انڈیا کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے بس کے ذریعے لاہور آ کر مسئلہ کشمیر سمیت دیگر تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا۔جنرل مشرف نے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لئے کارگل کی جنگ شروع کی اور وزیراعظم محمد نوازشریف کو بے خبر رکھاگیا۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز نے اپنی کتاب (یہ خاموشی کہاں تک)میں لکھا ہے کہ کارگل مہم جوئی کی سوائے جنرل مشرف، جنرل عزیز خان، جنرل محمود اور میجر جنرل جاوید حسن کے علاوہ کسی اور سینئرآفسر کوکانوں کان خبر نہ تھی۔پرویز مشرف نے سری لنکا جانے سے پہلے آخری ملاقات میں یہ فیصلہ کیا تھا اگر ان کی غیر موجودگی میں نواز شریف نے انہیں فوج کی قیادت سے ہٹانے کی کارروائی کی تو فورا حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔ کئی دنوں سے ان کے گھر پر اس سلسلے میں ملاقاتیں جاری تھیں۔ ان ملاقاتوں میں جنرل محمود،جنرل عزیزخان، جنرل احسان الحق اور بریگیڈئر راشد قریشی اور چیف کے پرنسپل سٹاف آفیسر موجود ہوتے تھے۔ حالات و واقعات کے جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تیسری بار بھی محمد نواز شریف کو وزیراعظم کے عہدے سے مستعفی کرانے میں ناکامی کے بعد پانامہ سکینڈل کے ذریعے وزیراعظم کے عہدے سے ہٹایا گیا۔بیٹی اور داماد سمیت جیل اور نااہلی کی سزائیں سنائی گئیں۔ محمد نواز شریف کی تین دفعہ حکومت کو مدت پوری نہیں کرنے کی بڑی وجہ ان کی جانب سے سویلین بالادستی کا قیام اور جمہوریت کا استحکام تھا۔بار بار فوجی مداخلت کی وجہ سے ہمارے ملک نے ترقی نہیں کی۔بنگلہ دیش بھی معاشی لحاظ سے پاکستان سے آگے نکل گیا ہے۔ لیکن یہ بھی دیکھئے کہ مسلم لیگ (ن) آج پھر سودے بازی کے ذریعے پھر برسر اقتدار ہے اور مہنگائی، بیروزگاری آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ عمران خان آئے تو سابقہ حکومت کو دوش دیتے رہے اور موجودہ حکمران اُن پر زبردست تنقید کرتے رہے۔ آج یہ برسراقتدار ہیں تو عمران خان تنقید کر رہا ہے لیکن ایک سوال ہے کہ آپ سب نے تو ایک دوسرے پر الزامات سے جان چھڑا لی مگر ایک عام آدمی اور غریب پاکستانی کا کیا قصور ہے کہ وہ آپ کی لڑائیوں میں مسلسل کچلا جا رہا ہے۔