تھر اب تک پاکستان کا سب سے زیادہ پس ماندہ علاقہہے۔ یہ وہ ریگستان جہاں سے خوبصورت روایات نے جنم لیا۔ جہاں صرف مور رقص نہیں کرتے مگر قطرہ قطرہ پانی کے لیے ترستے انسان جب آسمان پر میگھ ملہار دیکھتے ہیں؛ تب ان کی بانہیں مور کے پروں کی طرح کھل جاتی ہیں اور وہ اپنے سارے دکھ بھلا کر زندگی کا گیت اور سنگیت بن کر جھومتے ہیں۔ تھر کی ثقافت اور غربت ہمیشہ میڈیا کا محبوب موضوع بنا رہا ہے لیکن کچھ عرصے سے تھر اپنی آبادی کی وجہ سے نہیںبلکہ اس پہاڑ کی وجہ سے میڈیا کا موضوع بنا ہوا ہے جس پہاڑ کانام ’’کارونجھر‘‘ ہے۔ یہ نام کس قدر انوکھا اور سماعتوں میں رس گھولنے والا ہے۔یہ پہاڑ پاکستان کے دیگر پہاڑوں کے مانند بہت بلند نہیں ہے اور نہ بیس کلومیٹر کے رقبے میں پھیلے ہوئے اس پہاڑ میں کوئی نایاب جنگلی حیات ہے۔ اس پہاڑی سلسلے میں کوئی اموزون کے مانند کوئی رین فاریسٹ بھی نہیں ہے مگر پھر بھی جب کبھی بادل تھر کی حیات پر مہربان ہو جاتے ہیں تب کارونجھر پہاڑ کا روپ نکھر جاتا ہے۔ اس پہاڑ میں سے کئی آبشار امڈ کر بہنے لگتے ہیں۔ بارش کے بعد اس پہاڑ میں نایاب نباتات کاظہور عمل میںآجا تا ہے اور پھر پھولوں سے بھرئے اس پہاڑ پر سینکڑوں موررقص کرنے لگتے ہیں۔ کارونجھر پہاڑ کی اصل وجہ شہرت تاریخ کے وہ آثا ر ہیں جو عدم توجہی کے باوجود اب تک کسی نہ کسی صورت میںموجود ہیں۔ وہاں پر سب سے قیمتی چیز بدھ مت کو ماننے والے سادھوؤں کا بنا ہوا وہ ’’گوری مندر‘‘ ہے؛جواس بات کی گواہی دیتا ہے کہ سندھ میں تاریخی طور پر ہندوؤں کی نہیںبلکہ بدھ مت کوماننے والوں کی حکومت تھی۔ بدھ مت کے پیروکار گھنٹیاں نہیں بجاتے اور عبادت کے دوراں شور شرابا نہیں کرتے۔ اس لیے تاریخ میںانہوں نے اپنے مندر کے لیے اس مقام انتخاب کیا تو اس کی بھی کوئی وجہ تھی۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ دور ریگستان میں ایک خوبصورت پہاڑ کے سائے میں جو گہری خاموشی ہے وہ خاموشی آپ کو سنھ کے علاوہ اور کہیں بھی نہیں مل سکتی۔بدھ مت مذہب میں دھیان اور گیان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اس لیے وہاں پر بدھ مت والوں نے اپنے ڈیرے ڈال دیے تھے۔ مگر تاریخ کا کتنا بڑا المیہ ہے کہ وہاںاب بدھ مت کو ماننے والا کوئی ایک بھی نہیں رہتا اور نہ وہاں آپ کو جین مذہب سے تعلق رکھنے والے نظر آئیں گے۔ان کی ٹوٹی پھوٹی عبادت گاہیں ہیں؛ مگر وہ خود کہیں بھی نہیں۔ سندھ کے ادب نے کارونجھر کو جتنی اہمیت دی اتنی اہمیت کسی پہاڑ کو نہیںدی۔ کیا اس کا سبب اس پہاڑ کا غیر روایتی نام ہے؟ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے مگر کارونجھر کی اہمیت کا اصل سبب اس پہاڑ کا وہ رنگ اور روپ ہے جو سندھ میں کسی اور پہاڑ کا نہیں ہے۔ کارونجھرگرینائٹ پتھروں سے وجود میں آنے والا پہاڑ ہے۔ اس کا رنگ گہرا بھورا رنگ ہے۔ ا س گہرے بھورے رنگ پر جب بارش کے بعد ہری گھاس اگ آتی ہے تب وہ بہت تو دلکش محسوس ہوتا ہے اور اس دلکش پہاڑ پر جب مور ناچتے ہیں تب اس کا منظر خواب جیسا ہوجاتا ہے۔ کارونجھر کے قیمتی پتھروں کی وجہ سے اس کی کٹائی ایک عرصے سے جاری تھی مگرجب سے سوشل میڈیا نے اپنے قدم جمائے ہیں اور برسات کے بعد تھر میں پک نک منانے والے مقامی سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہوا ہے تب سے کارونجھر پہاڑ کی کٹائی کے خلاف احتجاجی مہم نے زور پکڑا اور یہ مہم اس وقت بہت طاقتور ہوگئی جب تھر کے علاقے ننگر پارکر کی ایک مقامی عدالت نے کارونجھر کی کٹائی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے حکومت سندھ کو ہدایت کی وہ کارونجھر کی کٹائی فوری طور پر بند کرائے۔حکومت سندھ نے خاموشی سے عدلیہ کاحکم مان لیامگر یہ بات اب تک رکارڈ پر ہے کہ کارونجھر کو بچانے کے لیے اب تک پیپلز پارٹی نے کوئی قدم نہیںاٹھایا مگر پیپلز پارٹی کی سرشت میں ہے وہ ہرچیز کاکریڈٹ لیتی ہے؛اس طرح اب کارونجھر پہاڑ کو بچانے کا تمغہ پیپلز پارٹی اپنے سینے پر سجانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی سے نہ صرف سندھ بلکہ پورا ملک مطالبہ کرتا رہا ہے کہ وہ اہلیان تھر سے صرف ووٹ نہ لے بلکہ ان کو انصاف بھی دے۔ تھر کوانصاف کس طرح حاصل ہوسکتا ہے؟تھر سے انصاف تب تک نہیں ہوسکتاجب تک اہلیان تھر کو پانی نہیں ملتا۔ اہلیان تھر کے مخصوص مزاج کی وجہ سے تھر کو کسی کالونی کی طرح لوٹا گیا ہے،حکومت سندھ کے وہ تھرے نمائندے کو اوچی کاسٹ سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے تھر کے لوگوں کواس قدر ڈر اور خوف کا شکار رکھا ہے وہ تھر کے لوگ حکومت مخالف احتجاج کا سوچ تک نہیں سکتے۔ اس جدید دور بھی ان کی حیثیت غلاموں جیسی ہے۔ وہ غلامی کے اس زندان کے قیدی ہیں جو بظاہر نظر نہیں آتی مگر پھر بھی اس کا وجود رسم و رواج اور کاسٹ سسٹم کے حوالے سے شدت کے ساتھ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تھر صرف پانی کی وجہ سے پسماندہ ہے۔ اگر تھر کو پانی کا حق مل جائے تو یہاں پر بھی زندگی کاکارواں رواں دواںہوجائے اور ہم تھر کو اس مقام پر جاتا دیکھیںجہاں پہنچ کر انصاف کے لیے آواز اٹھانا بہت عام سی بات ہو جاتا ہے۔ تھر کے لوگ ہر چیز سے ڈرتے ہیں۔ وہ کارونجھر پہاڑ کی کٹائی سے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں کارونجھر اور اس پر ناچنے والے مور انہیں بدعائیں نہ دیں۔ وہ کارونجھر پہاڑ کو کاٹ کر لے جانے والی کمپنیوں سے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کو غصہ نہ آجائے۔ وہ حکومت سے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ ان پر قانون کی بجلی نہ گرادے۔ تھر کے لوگ بہت ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔ وہ تو اپنے سائے سے بھی ڈرتے ہیں۔ خوف ان میں نسل در نسل منتقل ہوتا رہا ہے اور حکومت وقت اس چیز کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ تھر کے سب سے بڑے شہر مٹھی میں تو کوئی برائے نام احتجاج ہو بھی سکتا ہے مگر تھر کے دیہاتوں میں درد کبھی اپنا اظہار نہیں کرتا۔ تھر کے لوگوں کو اپنا درد دبانے کی عادت ہے۔ عمران خان جب تحریک انصاف کی تنظیم ملک کے لئے کونے کونے میں جایا کر تے تھے، اس وقت تھر میں میںبھی بہت آتا جاتا تھا۔ ہمارے صدر مملکت کے پاس ایک ایسی تصویر بھی ہے جس میں عمران خان تھر میں ایک عام سی چارپائی پر بڑے سکون سے سو رہے ہیں۔ صدر مملکت نے کچھ عرصہ قبل وہ تصویر ملک کے عام سے شیئر بھی کی تھی۔ اس تصویر کو شیئر کرنے کا مطلب صرف یہ دکھانا تھا کہ عمران خان کو تھر کے مسائل بخوبی معلوم ہیں۔ تھر کے دکھ درد کون نہیں جانتا؟ تھر کے لوگ اس بچے کی طرح ہیں جو بھوک اور پیاس کی وجہ سے روتا ہے اور اس کی بھوک پیاس مٹانے کے بجائے اس کو کھلونوں سے بہلانے کی کوشش کی جائے۔ تھر ملکی عدلیہ کا یہ احسان یاد رکھے گا کہ اس نے کارونجھر پہاڑ کو کاٹنے پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پابندی عائد کردی ہے۔ یہ فیصلہ بہت اچھا ہے مگر تاریخ کے کٹہرے میں سچ آج بھی ایک فریادی کی طرح کھڑا ہے کہ کارونجھر پہاڑ کو تو انصاف مل گیا مگر کارونجھر کے سائے میں رہنے والے اہلیان تھر کو انصاف کب ملے گا؟‘‘