کبھی میں ان کی زندگی کے نشیب و فراز کے بارے میں سوچتا ہوں۔دہلی کی توانہر والی حویلی سے لے کر دبئی کے امریکن ہسپتال تک کا سفر قسمت اور مقدر کی رعنائیوں سے بھر پور نظر آتا ہے۔ایک متوسط خاندان میں پروان چڑھے اور ایک امتیازی معاشرے میں رہنے والے کسی فرد کو عام طور پر اعلیٰ ترین مقام پر پہنچنے کی امید نہیں ہوتی۔لیکن جنرل پرویز مشرف نے یہ سفر پھلانگتے گزارا‘متلاطم زندگی کے اس پرخطر سفر میں ان سے بے شمار غلطیاں بھی ہوئیں۔اور انہوں نے متعدد شاندار فیصلوں سے داد بھی سمیٹی‘ اپنی فوجی زندگی میں انہیں ایک سنجیدہ و پیشہ ور آفیسر کی بجائے ایک بے قاعدہ خوش و خرم اور اعتراضات کرنے والا آفیسر سمجھا جاتا تھا۔اگر ان کی زندگی میں جھانک کر دیکھیں تو آپ خود حیرانگی میں ڈوبتے چلے جائیں گے کہ نظم و ضبط کے منافی‘اپنی سوچ و فکر کے دھارے میں بہہ جانے والا ایک ایسا شخص جو دلیری اور جراتمندی کے ساتھ اپنی ذات میں مگن رہتے ہوئے شہرت اور ترقی کی منزلیں یوں عبور کر جائے گا جس کا اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔قاتلانہ حملوں‘ ہوائی حادثوں اور پرخطر مہم جوئی کے تمام مراحل سے بحفاظت گزر جانے والا یہ شخص اس مملکت پر نو برس بلا غیرے شرکت حکمرانی کا سکہ جمائے رکھے گا۔اگر آپ ان کے فوجی کیریئر پر نظر ڈالیں تو زمانہ جنگ میں ان کی کارکردگی‘ کمانڈر کی حیثیت سے ان کا کردار اپنے سپاہیوں کے ساتھ ان کا برتائو اور سب سے زیادہ اپنے اعلیٰ آفیسروں‘ ساتھیوں اور ماتحتوں کے ساتھ ان کے تعلقات ہی ان کی قوت کا اصل راز تھے۔وہ جیسے جیسے آگے بڑھتے رہے ان کی ذہنی اور پیشہ وارانہ بصیرت میں اس حد تک اضافہ ہوتا رہا کہ انہیں جنگی تدابیر اور فوجی حکمت عملی کی اچھی سوجھ بوجھ رکھنے والا آفیسر سمجھا جانے لگا مقدر کا کھیل دیکھیے کہ جب انہوں نے منگلا کے کور کمانڈر کی حیثیت سے باعزت طور پر ریٹائر ہونے کا سوچ لیا تھا اور اپنا سامان پیک کرنا شروع کر دیا تھا تو اس مرحلے پر وزیر اعظم نواز شریف کے صدر سے فوجی سربراہوں کے تقرر کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لینے کے فیصلے نے صورتحال بدل دی۔یہ 7اکتوبر 1998ء کی شب تھی جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ کھانا کھا کر ٹیلیویژن دیکھ رہے تھے جب انہیں وزیر اعظم نواز شریف کے ملٹری سیکرٹری کا فون موصول ہوا کہ وزیر اعظم ان سے فوری طور پر ملنا چاہتے ہیں۔عام طور پر وزیر اعظم ایک لیفٹیننٹ جنرل کو نہیں بلایا کرتے وہ بھی رات کو جبکہ کوئی بھی اہم گتھی سلجھانے کے لئے آرمی چیف قریب ہی دستیاب ہو۔ملٹری سیکرٹری کے اس اصرار کے باوجود کہ آپ جتنی جلد ممکن ہو آ جائیں اور یہ بات کسی کو نہ بتائیں۔یہ ہدایات کافی تھیں ملک کے وزیر اعظم نے انہیں طلب کیا تھا، انہوں نے وردی پہنی ملٹری پولیس کا حفاظتی دستہ بلایا احتیاطاً اپنا glock 17پستول باندھا اور اسلام آباد کی طرف روانہ ہو گئے‘ اس مرحلے پر انہیں کچھ نہیں معلوم تھا کہ کیا ہونے والا ہے جب وہ وزیر اعظم کے دفتر میں داخل ہوئے تو ان کے خیالات منتشر تھے وزیر اعظم نواز شریف صوفے پر بیٹھے تھے، انہوں نے جنرل مشرف کو بتایا کہ چیف آف آرمی اسٹاف نے استعفیٰ دیدیا ہے اور انہوں نے نئے آرمی چیف کے لئے ان کا انتخاب کر لیا ہے، چند باتوں کے بعد جنرل مشرف نے وزیر اعظم کا ان پر اعتماد کرنے کا شکریہ ادا کیا ،نواز شریف نے ان کے کندھوں پر نئے عہدے کے بیج لگاتے ہوئے کہا جنرل صاحب میں نے آپ کا انتخاب اس لئے کیا کہ آپ واحد لیفٹیننٹ جنرل ہیں جس نے کبھی اس عہدے کے لئے مجھ سے بالواسطہ یا بلاواسطہ رجوع نہیں کیا۔انہوں نے ایڑھی بجا کر وزیر اعظم کو سلیوٹ کیا اور وہاں سے چلے آئے۔ جنرل مشرف کی زندگی کا دوسرا ٹرننگ پوائنٹ وہ لمحات تھے جب وہ 12اکتوبر 1999ء کی شام سری لنکا سے پاکستان آنے والی پرواز میں سفر کر رہے تھے ان کے ملٹری سیکرٹری میجر جنرل ندیم تاج نے ان کے کان میں سرگوشی کے انداز میں بتایا۔ ’’سر پائلٹ آپ کو کاک پٹ میں بلا رہے ہیں‘‘ یہ کولمبو سے کراچی کی عام کمرشل فلائٹ تھی، طیارہ ہوائی اڈے پر اترنے کے لئے 8ہزار فٹ کی بلندی تک نیچے آ چکا تھا۔جنرل مشرف کو زمین پر ہونے والے واقعات کی بھنک تک نہیں تھی، یہ ایئر بس کی پرواز تھی، اس میں کراچی گرائمر سکول کے 100سے زائد طلباو طالبات بھی سفر کر رہے تھے ،جو تفریح کی غرض سے سری لنکا گئے ہوئے تھے اور اس پرواز سے اپنے گھروں کی طرف لوٹ رہے تھے جب دوسری بار ندیم تاج نے اپنے باس سے کہا کہ سر کوئی ایمرجنسی ہے، پائلٹ کاک پٹ میں آپ کو بلا رہے ہیں، پائلٹ نے بتایا کہ جہاز کو پاکستان کے کسی ہوائی اڈے پر اترنے کی اجازت نہیں اور کنٹرول ٹاور سے یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ وہ پاکستان کی فضائی حدود سے فوراً باہر چلا جائے، پائلٹ نے تشویش بھرے انداز میں بتایا کہ جہاز میں پرواز کے لئے صرف ایک گھنٹے دس منٹ کا ایندھن رہ گیا ہے، اس وقت جنرل مشرف کے اے ڈی سی اور ملٹری سیکرٹری تین مختلف نمبروں پر کراچی کے کور کمانڈر سے بات کرنے کے لئے جہاز کے مختلف حصوں میں سگنل تلاش کر رہے تھے۔ کنٹرول ٹاور بار بار ہدایت کر رہا تھا کہ کپتان جہاز کو پاکستان سے باہر کہیں بھی لے جائے، پائلٹ کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا ،جہاز کا ایندھن ختم ہوتا جا رہا تھا۔مایوسی بڑھ رہی تھی اسی اثناء میں کراچی آرمی ڈویژن کے میجر جنرل افتخار علی خان نے جہاز کے ریڈیو کے ذریعے رابطہ کیا۔جنرل افتخار کہہ رہے تھے، چیف سے کہیں وہ واپس آ جائیں اور کراچی میں اتریں، انہوں نے پائلٹ کو بتایا کہ حالات اب قابو میں ہیں۔ جنرل مشرف کو اب بھی شبہ تھا اور اس لئے انہوں نے جنرل افتخار سے خود بات کی کہ آیا یہ جنرل افتخار ہی ہے یا آواز بنا کر بول رہا ہے۔جنرل مشرف نے افتخار سے پوچھا ’’کور کمانڈر کہاں ہیں‘‘ جواب آیا ’’سر کور کمانڈر وی آئی پی لائونج میں ہیں اور میں ایئر کنٹرول روم میں ہوں‘‘۔ جنرل مشرف نے پوچھا آخر معاملہ کیا ہے۔ جنرل افتخار نے کہا مجھے یقین ہے آپ کو کچھ معلوم نہیں سر دو گھنٹے پہلے وزیر اعظم نے آپ کو ریٹائر کر کے جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف نامزد کر دیا تھا، اس کے بعد یہ ساری کارروائی ہوئی۔آپ اطمینان رکھیں حالات کنٹرول میں ہیں مزید مطمئن ہونے کے لئے جنرل مشرف نے جنرل افتخار سے پوچھا۔ تم میرے کتوں کے نام بتا سکتے ہو؟ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ جنرل افتخار انہیں جانتے تھے ،اگر یہ کوئی اور ہے جو ان کی آواز بنا کر بول رہا تھا یا وہ کسی دبائو کے تحت بول رہا تھا تو وہ یا تو نام نہیں بتا سکتا تھا یا ازخود صحیح نام نہیں بتائے گا۔ (جاری ہے)