محمد علی کی عمر ساڑھے پانچ سال ہے۔ وہ ایک سرکاری سکول میں پڑھتا ہے۔اس کی ماں گھروں میں کام کرتی ہے اس کا باپ بھی دیہاڑی لگاتا ہے۔ اس کا باپ بیمار رہتا ہے، اس لئے اس کی دیہاڑی دھوپ چھاؤں جیسی ہے کبھی لگتی ہے اور کبھی نہیں۔ محمد علی اپنے باقی بہن بھائیوں سے مختلف ہے اسے پڑھنے کا بہت شوق ہے۔وہ صاف کپڑے پہننا چاہتا ہے۔اپنا منہ روز صابن سے دھونا چاہتا ہے گھر پہ صابن نہ ہو تو وہ شور مچاتا ہے کہ صابن کیوں نہیں ہے۔دوسرے بہن بھائیوں کے برعکس کیک اور بسکٹ بھی کھانے کو مانگتا ہے۔ وہ ابھی بچہ ہے اس لئے گھر کے حالات پوری طرح نہیں جانتا اس کی خواہش ہے کہ وہ بڑا آدمی بنے۔ اس کی یہ بھی خواہش ہے کہ وہ اسکول لنچ میں پراٹھے کے ساتھ انڈا لے کر جائے۔ محمدعلی کی خواہش پر اس کی ماں ایک انڈا روز خریدتی ہے اور اپنے دوسرے بچوں سے چھپا کر اسے اسکول لنچ میں میٹھا انڈا بنا کر دیتی ہے۔اس کے گھر جہاں مہنگائی کے وجہ ایک وقت کھانا بنتا ہے اور اس میں بھی ہانڈی میں پیاز نہیں پڑتے وہاں روز ایک انڈا خریدنا باقاعدہ ایک کام ہے۔وہ ماں کے ساتھ روز شام کو ایک انڈہ خریدنے کے لئے جاتا ہے۔ ایک روز ماں کے پاس پیسے کم تھے شاید ایک دو روپے کم تھے اس کی ماں نے کہا کہ میں کل پورے پیسے دے دوں گی بھائی ایک انڈا دے دو دکاندار نے کہا کہ جب پورے پیسے لے آؤ گی تو انڈا بھی لے جانا۔ محمد علی کو یہ بہت برا لگا وہ منہ بسور کے ماں کے ساتھ گھر واپس آگیا ۔ ماں نے کہا کے تم آج چینی والا پراٹھا لے جاو،ٔ محمد علی نے کہا کہ بچے تو اتنا کچھ کھاتے ہیں کیا میں ایک انڈا بھی روز نہیں کھا سکتا؟ یہ سن کر اس کی ماں لاجواب ہو جاتی ہے۔ محمد علی اسی شہر کا ایک سچا کردار ہے وہ ریاست پاکستان کا ایک ہونہار بچہ ہے۔ محمد علی اور اس جیسے دوسرے بچے جو غریب گھرانوں میں پیدا ہوئے مگر اللہ تعالی نے انہیں حساسیت اور ذہانت سے نوازا ہے۔ان میں بھی آگے بڑھنے کی فطری خواہش موجود ہے۔ پڑھنے کی، اچھا کھانے کی، اچھا پہننے ،کی اپنے خواہش ہے۔ وہ اپنے ماں باپ کو صبح سے شام تک مزدوری کا ایندھن بنتے دیکھتے ہیں مگر پھر بھی ان کے گھر میں ایک وقت کا کھانا مشکل سے بنتا ہے۔ محمد علی اور جیسے دوسرے غریب بچوں کے حق پر ڈاکہ مارنے والے کون لوگ ہیں؟ وہی جو حکمران ہیں، وہی جو اسمبلیوں میں جاتے ہیں، وہی جو سینٹ کے ممبر ہیں،وہی جو پالیساں بناتے ہوئے اس ملک کے لاکھوں محمد علیوں کے خواب روند دیتے ہیں۔ محمد علی کے مجرم پاکستان کے تمام حکمران اور اہل اختیار اشرافیہ ہے۔ محمدعلی جیسے بچوں کے مجرم وہ بے حس حکمران ہیں، جو اپنے مفاد اور اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے وہ فیصلے کرتے ہیں جو پاکستان کے خزانے پر بوجھ بنتے ہیں۔ میں اپنے کالم میں محمد علی کی کہانی بیان کر رہی ہوں۔ مگر یہ ایک محمد علی نہیں بلکہ کروڑوں غریب بچوں کی بات ہے جن کے خواب اس ملک کی بے حس حکمران اشرافیہ نے بے ثمر کیے منیر نیازی یاد آگئے میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا۔ محمد علی جیسے کروڑوں بچوں کی زندگیوں کو آسودگی سے دوچار کرنا حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے کیونکہ ترجیحات کب اور ہیں کہ وزیر اعظم کے نورتنوں کی تعداد مزید بڑھائیں سو یہ بیک جنبش قلم بڑھالی گئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے معاونین کی تعداد اب پچاسی تک پہنچ چکی ہے اور یہ 85 لوگ جھنڈے والی گاڑیاں بھی لیں گے ،پروٹوکول بھی لیں گے پاکستان کے خزانے سے تنخواہیں بھی وصول کریں گے مگر اس سوال کو رہنے دیں کہ یہ کام کیا کریں گے؟ کیا وزیراعظم کو احساس ہے کہ خلق خدا کس مشکل سے دوچار ہے؟خسارے میں جاتی ہوئی معیشت،لڑکھڑاتی ہوئی اکانومی پر پلنے والے یہ طفیلیے آخر کس لیے قوم پر مسلط کیے گئے ہیں۔ عام پاکستانی کی زندگی مشکل ہوتی جارہی ہے۔ مہنگائی اتنی بڑھ چکی ہے کہ ایک عام آدمی کی خالی جیب اس کی زندگی پر بھاری ہونے لگی ہے۔ بچوں والے والدین تو حسرت اور یاس کی ایک اور ھی کیفیت سے دوچار ہو تے ہیں۔ جب وہ اپنے بچوں کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر پاتے۔جبکہ آس پاس وہ اپنے حکمرانوں کی اربوں کھربوں کی کہانیاں سنتے ہیں اپنے آپ سے سوال کرنے لگتے ہیں کہ اللہ ہماری قسمت میں ایسے بے حس مفاد پرست ہوس زدہ حکمران کیوں ہیں؟ مجھے ایسا لگتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ بے حس حکمران پاکستانیوں کے حصے میں آئے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایک ہی چیز پر زور دیا ہے اور وہ ہے وزیر ،مشیر اور معاونین کی فوج بڑھاتے چلے جانا۔۔ ملک قرضوں میں رہن رکھا ہوا ، آئی ایم ایف کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی اکانومی، خسارے میں جاتی ہوئی معیشت ،بڑھتی ہوئی مہنگائی ،ڈالر کے مقابلے پر روپیہ بے قدرا ہوتا ہوا ،ایسے میں عام آدمی ایک عذاب سے دوچار ہے۔روز روز کی بڑھتی مہنگائی میں اس کی آمدنی گھٹتی چلی جاتی ہے غریب کو ڈھنگ کی روٹی بھی میسر نہیں۔آٹا اتنا مہنگا ہوچکا ہے کہ قوت خرید سے باہر ہورہا ہے اس پر آسانی سے دستیاب بھی نہیں ہے۔ پٹرول ہے تو آئے دن اس کے لیے قطاریں لگی رہتی ہیں۔ حکمران اشرافیہ کی عیاشیاں اور اللے تللے ختم ہونے میں نہیں آتے کہ مزید مشیر۔بھرتی کر لیے معاونین کی یہ فوج اس لیے بھرتی کی گئی کہ اپنے سیاسی حلیفوں پر احسان کئے جا سکیں اور اپنی کرسی کو مضبوط کیا جا سکے۔ ساڑھے پانچ سالہ محمد علی کو کیا خبر کہ ہر 75سالوں سے ملک پر مسلط یہ حکمران اشرافیہ کیا کچھ ہڑپ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ حکمران اشرافیہ محمد علی کی مجرم ہے، جو یہ سوال کرتا ہے کہ اماں سب لوگ اتنا کچھ کھاتے ہیں، تو میں ایک انڈا بھی نہیں کھاسکتا؟