بھار ت کے باپو مہاتما گاندھی سیاستدان تھے۔ان سے ایک دنیا واقف ہے اور بھارتی عوام و خواص اور اشرافیہ بھی خوب آشنا ہے۔بھارت کی سابق وزیر اعظم اندراگاندھی نے مغربی صحافی خاتون اوریانہ فلا سی کو انٹرویو دیا۔عالمی شخصیات سے انٹرویوز کی یہ کتاب ’’تاریخ سے مکالمہ‘‘کے عنوان سے 1970ء کی میں شائع ہوئی۔ آزاد بھارت کا بہترین وزیر اعظم نہرو سمجھا جاتا ہے۔اندرا گاندھی کا موقف ہے کہ مہاتما گاندھی اور نہرو دونوں متحدہ ہندوستان اور قومیت کے علمبردار تھے۔ جبکہ قائد اعظم محمد علی جناح اور آل انڈیا مسلم لیگ منقسم ہندوستان ہندو مسلم جداگانہ اور اسلامی قومیت نمائندے تھے۔ہندوستان بٹ گیا اور پاکستان اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے قائم ہوا ۔گاندھی اور نہرو اپنی زندگی میں تقسیم ہند نہ روک سکے۔گاندھی اور نہرو نے جو چاہا وہ نہ پایا جبکہ قائد اعظم نے جو چاہا‘ وہ پایا اور اپنی مسلمان قوم کو وہ سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی اور مذہبی یکجہتی فراہم کی جو پاکستان کے قیام کی بنیاد بنی۔حقیقت تو یہ ہے کہ کامیاب اور ناکام سیاستدان کا موازنہ بے معنی ہے مگر سرحدی گاندھی کہلانے والے باچا خان(عبدالغفار خان) اور اس کے چند مہاجر اور سندھی پیروکار مذکورہ بالا دونوں شخصیات کا موازنہ کرتے ہوئے ’’میلے ٹھیلے‘‘ لگائے پھرتے ہیں اور زبان دانی یا زبان درازی کے زور پر ناکام کو کامیاب بنانے پر تلے ہوئے ہیں، کبھی چودہ اگست اور کبھی ساڑھے چودہ کہتے اور لکھتے رہتے ہیں۔یہ عمل ایسا ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا‘دن میں خواب دیکھنا یا دیوالی منانا ہے۔ قائد اعظم اور مہاتما گاندھی کے سیاسی و عملی کردار کا ذکر تو ہو گیا مگر مذکورہ قائدین کی شخصیت اور فکر و عمل کا جائزہ دلچسپی سے خالی نہیں۔مہاتما گاندھی امن کے پجاری تھے اور جنگ و جدل کو سخت ناپسند کرتے تھے۔مہاتما گاندھی کی عالمی شہر ت اہنسا یا عدم تشددکے مبلغ کی تھی۔انہوں نے تحریک خلافت کی قائدانہ رہنمائی سے یکدم دستبرداری کا اعلان کر دیا کیونکہ مسلمانوں نے ’’چورا چوری‘‘ کے مقام پراہنساکی پیروی نہیں کی۔لہٰذا مہاتما گاندھی نے تحریک خلافت میں مسلمانوں کو منجدھار میں چھوڑ دیا اور ہندومت کے احیا اور کامیابی کے لئے ہندو مہاسبھا کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس (RSS)شدھی اور سنگھٹن تحریکوں کا اجرء اور سرپرستی شروع کر دی۔قیام پاکستان کے وقت عدم تشدد کے دعویدار مہاتما گاندھی نے کہا کہ ’’اگر میں ہمیشہ جنگوں کا مخالف رہا ہوں۔تاہم اگر پاکستان کے حصول انصاف کا ہر طریقہ بے سود ثابت ہو تو پھر ہندوستان کے پاس پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں‘‘ تحریک پاکستان ۔تاریخی خدوخال ازپروفیسر محمد منور ص49) ۔یاد رہے کہ تقسیم ہند کے 3جون پلان کے مطابق پاکستان کو متحدہ اور مکمل کشمیر‘ پنجاب اور بنگال ملنا تھا جو برطانیہ نے اصولی و اخلاقی بددیانتی اور ناانصافی سے بھارت کا حصہ بنا دیا۔ برطانوی صحافی بیورلے نکلس نے 1943ء میں محا کمۂ ہند کتاب لکھی اور گاندھی کے بارے میں لکھا کہ ’’گاندھی کی شخصیت گمانوںاور خود ساختہ مفروضات کا گھنا جنگل ہے‘‘ اسی طرح آئر رگھیواناپنی کتاب ’’مہاتما گاندھی کے اخلاقی سیاسی خیالات‘‘ کے ص 13میں ہے کہ گاندھی کے لئے سب سے بڑی سچائی لمحے کی حقیقت ہے اور ہر لمحہ اپنی جدگانہ سچائی اور حقیقت رکھتا ہے۔ گاندھی جی کے الفاظ ہیں کہ ’’میں لکھتے وقت کبھی اس بات کے بارے میں نہیں سوچتا کہ میں نے اس سے پہلے کیا کہا تھا۔میرا مقصد اسی موضوع اور مسئلہ پر پرانے موقف سے ہم آہنگ ہونا نہیں ہوتا بلکہ اس حقیقت اور سچائی کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ہے جو اس وقت (یعنی ان لمحوں میں) میرے سچائی بن کر ظاہر ہوتی ہے۔قائد اعظم نے 30جولائی 1944ء کو ’’اچاریہ پلان‘‘ کے حوالے سے بجا کہا کہ گاندھی جی متضاد اور متصادم خیالات و نظریات کے حامل ہیں۔’’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گاندھی کی اعانت اور تعاون کس حیثیت میں حاصل کیا جائے جبکہ وہ خود کہتے ہیں کہ کانگریس میں ان کی حیثیت چار آنے بھر کی بھی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک پاکستان جوں جوں عوامی زور پکڑتی تھی گاندھی جی کی کانگریسی اور سیاسی حیثیت کمزور بلکہ بے معنی ہوتی گئی۔ کتاب مہاتما گاندھی کے آخری لمحات کے مصنف پیارے لال صفحہ 239میں لکھتے ہیں کہ باپو جی 25جون 1946ء کی صبح آٹھ بجے کانگرس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں شامل ہوئے مگر ارکان کی پذیرائی سے محروم رہے۔گاندھی جی کے الفاظ ہیں کہ ’’میں شکست تسلیم کرتا ہوں آپ پر میرے بے بنیاد شکوک و شبہات کے مطابق کام کرنا لازم نہیں۔ تم لوگ میرے وجدان کے مطابق اس وقت عمل کرو جب یہ تمہاری عقل کو اپیل کرے۔ورنہ تم بے شک آزادانہ اپنی راہ اختیار کر لو۔اس فیصلہ کن مرحلے پر باپو ان لوگوں کے لئے بیکار تھے۔وہ (کانگرس ورکنگ کمیٹی کے ارکان) فیصلے کر چکے تھے کہ پائلٹ کو جہاز سے نیچے پھینک دیں۔باپو اپنی رہائش گاہ کی طرف لوٹ گئے‘‘ مائیکل ایوراڈز اپنی کتاب ’’برطانوی راج کے آخری سال کے صفحہ 149میں لکھتے ہیں کہ اب مہاتما گاندھی کانگرس کے ترجمان نہیں رہے تھے اور اب اگر وہ چاہتے بھی کہ دوبارہ اپنا اثرورسوخ نافذ کریں تو یہ خاصی مشکوک بات تھی۔یہی سچائی ہے کہ گاندھی اپنی زندگی کے آخری دور میں اپنوں اور بھارت ماتا کے لئے بے حیثیت اور بے وقار ہو چکے تھے جبکہ بیورلے نکلس اپنی کتاب محاکمۂ ہند صفحہ 88میں لکھتے ہیں کہ ’’مسٹر جناح(قائد اعظم) ایشیا کے اہم ترین فرد ہیں۔ایشیا کے مسائل ان کی مرضی سے حل ہوں گے۔ وہ جنگ کا پانسا جس طرح چاہے پلٹ دے گا کیونکہ اس کے حکم (تقریباً تمام مسلمان) دس کروڑ مسلمان مارچ کریں گے اگر وہ کہے کہ بائیں دائیں یا عقب کو چلو تو وہ سب چل پڑیں گے۔وہ کسی دوسرے کے حکم پر ایسا نہیں کریں گے یہ ہے اصل نقطہ(اہمیت اور حیثیت) مگر ہندوئوں کی صف میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں کسی کو یکتا حیثیت حاصل نہیں۔‘‘