یہ نہیں ہے تو پھر اس چیز میں لذت کیا ہے ہے محبت تو محبت میں ندامت کیا ہے خوب کہتا ہے نہیں کچھ بھی بگاڑا اس نے ہم کبھی بیٹھ کے سوچیں گے سلامت کیا ہے کیا کریں یہ ہمارا بیانیہ ہے۔ ہر کسی کا اپنا بیانیہ ہے بلکہ اب تو بیانیے بدل بدل کر دیکھے جاتے ہیں کہ کون سا بیانیہ رش لے رہا ہے۔ اب کھڑے پائوں گھومنا بھی پرانی بات ہو گئی تو لٹو کی طرح بھی گھوم لیا جاتا ہے۔ شاید آپ نے کبھی لٹو کو گھومتے دیکھا ہو۔ پادش بخیر بعض اوقات بڑا لٹو گھومتے ہوئے ایسے لگتا تھا جیسے کہ رکا ہوا ہے دیکھنے والے کہتے تھے۔ لوجی لٹو سو گیا ہے۔ ایسا لٹو چلانے کے مقابلے میں ہوا کرتا تھا۔ یہ منظر نامہ تو صرف تمہید کے لیے تھا۔ خوشی ہوئی کہ ڈونلڈ لو فواد چودھری کو گھر آ کر ملا۔ ایسے ہی اپنے دوست اظہار شاہین یاد آ گئے: چاند‘ کچھ دیر تو ٹھہر گھر میں آسماں سے تجھ اتارا ہے مزے کی بات تو یہ ہے کہ پہلے پہل بڑی آسانی کے ساتھ خان صاحب نے نوازشریف کا بیانیہاچک لیا اور اس بیانیے کی بھینٹ باجوہ صاحب چڑھے۔ ن لیگ دیکھتی ہی رہ گئی کہ دوسری طرف انہیں ملکی معیشت نے لتارڑ دیا اور آئی ایم ایف نے ان کی کمر سیدھی نہیں ہونے دی۔ یہ لوگ بڑے بے رحم ہیں۔ خود پر بھی رحم نہیں کھاتے لوگوں سے وہ وہ سنتے ہیں کہ ان پر غیرت جو کھڑی ان پر ہنس رہی ہوتی ہے۔ افسوس ناک عمل یہ ہوا کہ ان لوگوں نے اداروں کو بھی غیر جانبدار نہیں رہنے دیا۔ اصل میں ادارے یہی تو افراد سے بنتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اپنے ادوار میں یہاں اپنے وفادار ممنشی بٹھائے اور وہ یقینا احسان فروش نہیں۔ اسی احسان کا تو ان کی اولادیں بھی کھا رہی ہیں۔ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ چیف جسٹس نے ہرگز غلط نہیں کہا کہ نوے روز میں الیکشن کا آئین کہتا ہے اور اس پر عملدرآمد کرانا فرض ہے۔ ایک سال کے لیے اسی طرح کے ماحول میں عدالتیں رات بارہ بجے کھل گئی تھیں۔ شاید مخالفوں کے اب بھی بارہ بجے ہوئے ہیں۔ تب بھی آئینی عدم اعتماد تھا اور اب بھی آئینی انتخاب۔ سچ تو پھر یہی ہے ڈسپلن تو ڈسپلن ہے۔ کسی بھی سرکاری ادارے کی دشمنی اور اس کی حمایت ایک مضحکہ خیز عمل ہے۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ سکتی کہ کسی ادارے کے ساتھ یکجہتی کے لیے ریلیاں نکالی جائیں۔ یعنی ثابت کیا جائے کہ ایک پارٹی ادارے کے ساتھ اور دوسری طرح خم ٹھونک کر کھڑی ہے ۔ کسی ادارے کی حکم عدولی بھی اسی طرح کا ناقابل معافی عمل ہے۔ یقین مانیے کہ ہنسی آئی ہے جب یہ سیاستدان عوام کو خوامخواہ بیچ میں لاتے ہیں۔ شیخ رشید اٹھتے ہیں تو فرماتے ہیں پوری قوم سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑی ہے۔ دوسری طرف کوئی کہتا ہے کہ پوری قوم نے موجودہ عدالتی قبضے کو رد کردیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ عوام کو تو انہوں نے کھڑے ہونے کے قابل ہی کہاں چھوڑا ہے۔ ان کو اپنی روزی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ایک اور بات نے مجھے لطف دیا کہ وزیراعظم صاحب کہتے ہیں۔ عمران مکار‘ محسن کش ہے اور اس کاسیاسی فائدے کے لیے اداروں کو دھکیاں دینا قابل مذمت ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مکار اور محسن کشن ہونا تو اچھے اورکامیاب سیاستدان کی پہلی اور آخری نشانی ہے۔ یہی خوبی تو نوازشریف میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ وہ کسی پر یقین نہیں کرتے۔ وہ تو بڑے آرام سے بغاوت کا کیڑا رکھنے والے کسی بھی پارٹی رکن کو ٹھکانے لگا دیتے تھے۔ انہوں نے کئی وعدے خانہ کعبہ کا غلاف پکڑ کر بھی کیے تھے۔ آپ یہی کہتے تھے کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی۔ چالاکی‘ ہیرا پھیری‘ جیسی خوبیاں سیاست کا حسن ہیں۔ دوسری بات رہی دھمکیوں کی‘ جناب نوازشریف کے لوگوں نے عدالت پر یلغار کی تھی۔ اصل میں یہ ان لوگوں کی مجبوری ہے کہ جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو وہ اپنے مخالفین کو ایسے ہی رگیدتے ہیں اور آواز اٹھانے والے ہر شخص کو غدار اور ملک دشمن سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کے پاس تو معقول بہانہ ہوتا ہے کہ وہ سرونگ حکومت کے حکومت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں خواہ وہ حکومت انہوں نے خود ہی بنوائی ہو۔ پھر تو وفاداری کا بھی تقاضا ہوتا ہے: وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے مرے بت خانے میں توکعبے میں گاڑو برہمن کو عمران خان اپنا سارا زور اس بات کو سمجھانے میں لگا رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ انہیں چوروں اور ڈاکوئوں کی مدد کرنے میں کیا فائدہ ہے۔ ویسے سوئے ہوئے شیروں کو سوئے ہی رہنے دیں۔ اب معاملہ بہت گرم ہے کہ ایک کے لیے انتخابات حیات ہیں اور دوسروں کے لیے موت۔ مزے لینے اور اپنے کیس معاف کروانے والے اب پریشان ہیں کہ لانے والے اپنے مطالبات منوا چکے اور عوام کو سولی پر لٹکا چکے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ وہ لوگ کیا کریں جو ایماندار ہیں اور ان کی تنخواہیں اور پنشن گرانی نے آدھی کردی۔ میں ذرا سا بھی مبالغہ نہیں کر رہا۔ تب عمران خان کے خلاف لکھتے تھے کہ پندرہ کا نان تھا اور آج تیس روپے کا ہے اور ہر چیز نان سٹاپ ہے۔ کل آئس کریم منگوائی تو پچاس ساٹھ والی سو روپے کی ہو چکی۔ سو روپے کی بھی کیا اوقات ہے بیٹا اتوار کو ناشتہ لینے جاتا ہے تو ہزار کا نوٹ مانگتا ہے۔ صرف نان ہی مہنگے نہیں چنے بھی اب گن کر ڈالے جاتے ہیں۔ کیلا رمضان گزرنے کے بعد بھی تین چار سو روپے فی درجن سے نیچے نہیں آیا۔ پھل والا بھائو اب پائو کا بتانا ہے کہ کلو کا بھائو دل پر اثر کرتا ہے۔ عوامی سواری بھی اب شاہی سواری ٹھہر۔70 ہزار کی موٹرسائیکل ایک لاکھ پچاس سے بھی اوپر جا چکی ہیں۔ ہیوی بائیک تو گاڑی کے ریٹ پر چلی گئی۔ پھر گاڑی چلانا تو کس و ناکس کے بس میں نہیں۔ پی ٹی آئی والے طعنے دیتے ہیں کہ اب بولو مہنگائی کے حوالے سے۔ بھائی کیا بولیں ہماری تو سانس ہی گم ہو گئی ہے۔ ایک چپ سی لگ گئی ہے۔ آخر میں دو تازہ ترین شعر: ایک پتھ پگھلنے والا تھا موم بن کر وہ جلنے والا تھا ہاتھ کیسے ہٹائے سینے سے کوئی دل سے نکلنے والا تھا