بھارت کی سخت گیر ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) کا سیاسی چہرہ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) 2014ء سے اقتدار میں ہے۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں نریندر مودی کی زیر قیادت بھارت کی مرکزی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی ہے، اس کی نظیر 75 سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ کشمیر کی رواں تحریک آزادی میں شہادتیں، گرفتاریاں اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا سلسلہ نئی بات نہیں۔ تاہم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد کشمیریوں کو ظلم و جبر، تشدد، رکاوٹوں اور پابندیوں کے جن نئے سلسلوں سے واسطہ پڑا، وہ انتہائی دردناک بھی ہیں اور جموں و کشمیر کے مستقبل کے لیے تشویش ناک بھی۔ بی جے پی کی حکومت کے دوران 2018ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی تحلیل کردی گئی۔ 2019ء میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم کردی گئی اور وہاں بہت تیزی کے ساتھ آبادی کا تناسب بگاڑا جا رہا ہے۔کشمیری قیادت کو مختلف مقدمات میں گرفتار کر کے سزائیں دی جارہی ہیں تاکہ تحریک آزادی کو دبایا جا سکے۔ یاسین ملک جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین اور کشمیر کی ایک جاندار و معتبر آواز ہیں۔ وہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے علمبردار ہیں ان کو بھارت نے گرفتار کرکے بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں قید تنہائی میں رکھا ہوا ہے۔ کشمیر کی مسلح جدوجہد کی تحریک میں یٰسین ملک کسی زمانے میں پیش پیش تھے لیکن بعد میں انہوں نے عسکریت پسندی کو مکمل خیر باد کہہ کر آئینی، سیاسی اور جمہوری جدوجہد کا راستہ اختیار کر لیا اس وقت ان کا ایک بہت بڑا حلقہ احباب پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے جب کہ ریاست جموں کشمیر کے اندر بھی ان کو زبردست عوامی پزیرائی حاصل ہے ان کی مقبولیت سے خوف کھا کر بھارتی نیشنل انسوٹیگشن ایجنسی نے ان پر بے بنیاد جھوٹے مقدمات قائم کئے اور ان کو عوام سے دور کردیا گیا کشمیریوںکے بنیادی حقوق کو بالکل سلب کردیا گیا ہے ان کی جمہوری اور سیاسی جدوجہد میں روڑے اٹکائے گئے ان کو ایک ایسے کیس میں عمر قید کی سزا سنائی گئی جس میں ہندوستان کی سپریم کورٹ نے انہیں پہلے ہی 1990ء کی دہائی میں بری کر دیا تھا۔ اب اسی کیس کو ری اوپن کیا گیا اور ان کو عمر قید کی سزا دے دی گئی ہے۔ سیشن جج کے عمر قید کے فیصلے کو بھارتی حکومت نے اب ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ بھارتی حکمران چاہتے ہیں کہ عمر قید کی سزا کو سزائے موت میں تبدیل کروایا جائے۔ اس فیصلے کے بہت سے محرکات و اسباب ہیں۔ جن میں ایک بھارت کی انتخابی سیاست بھی ہے۔ بھارت میں آئندہ سال 2024ء میں عام الیکشن منعقد ہوں گے۔ نریندرمودی زیادہ سے زیادہ ہندوئوں کا ووٹ اپنے کھاتے میں ڈالنے کے لئے یٰسین ملک کو بھلی چڑھانے کے لئے کوشاں ہیں۔ یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا سنگین معاملہ ہے۔ ظلم ہے۔ موجودہ دور میں تحریک آزادی کشمیر کے جو بھی ہمدرد ہیں انہیں چاہیئے کہ وہ انسانی حقوق کے مختلف ایوانوں اور سفارتی سطح پر یکجا ہو کر ایک موثر آواز بلند کریں اس سے پہلے کے بہت دیر ہوجائے۔ اس سے پہلے بھارت کشمیریوں کے عظیم رہنما مقبول بٹ، افضل گرو کو اسی طرح کے مقدموں میں پھانسیاں دے چکا ہے۔ پاکستان کی حکومت کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہئے اور سفارت خانوں کے ذریعے مختلف حکومتوں کے ساتھ سفارت کاری کے ذریعے اس خون ناحق کے خلاآواز اٹھانی چاہیئے۔ بیرون ملک کام کرنے والی کشمیری کمیونٹی سے گزارش ہے وہ اپنے اپنے طور پر اس المیے کو روکنے کے لئے اقوام متحدہ، یورپین ہیومین رائٹس کمیٹی، برطانیہ کی ہیومین رائٹس کمیٹی،امریکی سینٹ اور کانگریس سمیت اقوام متحدہ کی ہیومین رائٹس کونسل میں اس مسئلے کو اٹھانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ اقوام متحدہ ہیومین رائٹس کمیشن کے دفتر میں شکایت درج کی جائے تاکہ کاروائی کا آغاز ہوسکے۔ آخر میں بڑے افسوس سے کہنا کرنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان میں پچھلے 15 ماہ سے جس طرح سیاسی عدم استحکام انتشار اور خلفشار ہے اور عمران خان کی شخصیت اور ان کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔ سیاسی ورکروں کو گرفتار کیا گیا اور ان پر تشدد کیا گیا اس سے نہ صرف پاکستان کو نقصان ہوا ہے بلکہ کشمیر کی آزادی کی تحریک بھی متاثر ہوئی ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں اور کشمیریوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے وہ کشمیری اور پاکستانی جو بھارتی سفارتخانوں کے باہر مظاہرے کرتے تھے اب مایوس ہیں اور پاکستانی سفارت خانوں کے باہر مظاہرے کر رہے ہیں۔ کشمیری اور پاکستانی کمیونٹی جو اپنے اپنے ممبران آف پارلیمنٹ کو ملتے تھے اور کشمیر پر پاکستان کی مدد کرنے کا کہا کرتے تھے اور انسانی حقوق کی مقبوضہ کشمیر میں خلاف ورزیوں پر آواز بلند کرنے کا کہا کرتے تھے اب ان کی اکثریت اپنے اپنے ممبران آف پارلیمنٹس کو پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رکوانے کا کہہ رہی ہے۔ جس کا پاکستان کو نقصان ہو رہا ہے ۔ پاکستان جو کشمیریوں کی تحریک کا وکیل ہے جب وہ کمزور ہو رہا ہو معیشت تباہ حال ہو وہاں جب صحافی قتل ہوں اغوا ہوںگے، شخصی آزادیوں پر پابندی ہو گی سیاسی لوگوں پر سیاسی مقدمات ملٹری کورٹس میں چلیں گے تو پھر دنیا ہماری کیسے بات سنے گی۔ اب بھی وقت ہے 25 کروڑ عوام کے اس ملک کو سنبھالا جائے ۔اس وقت بیرونی دنیا ہمیں دیکھ رہی ہے۔ کشمیر کی آزادی کے لئے شہیدوں نے قربانیاں دی ہیں ان لازوال قربانیوں کو رئیگان ہونے سے بچانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔