آج بھی دل میں اپنے آبائی شہر کی محبت ہے اس شہر کے نام میں میرے لئے کوئی مقناطیسی کشش ہے تہوار خصوصاً عید کی خوشیاں اپنے آبائی شہر میں منانے کا مزہ ہی کچھ اور ہے والدین ، عزیز رشتہ دار اور پھر بچپن کے دوستوں کے ساتھ گپ شپ عید کی خوشیوں کو دوبالا کر دیتی ہے۔ والدین کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد بھی اپنے شہر سے رشتہ قائم و دائم ہے ، منڈی بہائوالدین کی سر زمین ہر لحاظ سے زرخیزخطہ ہے کیونکہ ایشیا کا قدیم ترین فنی تعلیم کا ادارہ گو رنمنٹ کا لج آف ٹیکنالوجی رسول ( تاسیس 1912ئ)ادھر ہی واقع ہے اب اس فنی تعلیم کے قدیم ادارہ کو یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کا درجہ دیدیا گیا ہے ان دنوں پنجاب یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی رسول میں معروف ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر روف اعظم وائس چانسلر کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ، منفرد ذائقہ کی شوگر تیار کرنے والی شاہ تاج شوگر مل ( تاسیس 1965ئ) ہو یاسستی بجلی تیار کرنے والا اہم پراجیکٹ ہائیڈل پارو پراجیکٹ رسول ( تاسیس 1968ئ) منڈی بہائوالدین ضلع میں ہی واقع ہیں،ملک کی معروف سیاسی ، سماجی اور ادبی قد آور شخصیات ڈاکٹر غلام حسین سابق سیکریٹری جنرل پاکستان پیپلز پارٹی،سابق وزیر اعلیٰ بنجاب حسن عسکری رضوی ، پنجابی کے معروف شاعر دائم اقبال دائم کا تعلق بھی منڈی بہائولدین سے ہے ۔ عید الضحیٰ سے قبل اورسیز ہسپتال منڈی بہائولدین کی افتتاحی تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہو ا اپنے شہر منڈی بہائوالدین کی کسی بھی سماجی تقریب میں شرکت کا موقع میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہ تھاایک ملاقات میں بڑے بھائی معروف صحافی ، کالم نویس اسلم خان کی طرف سے شرکت کی تاکید بھی کی گئی ، اورسیز ہسپتال منڈی بہائوالدین کی افتتاحی تقریب میں شرکت کیلئے اتوار کے روز بڑے بھائی اسلم خان اور اہم کاروباری شخصیت عثمان شوکت کے ہمراہ منڈی بہائوالدین کیلئے روانہ ہوئے براستہ موٹر وے ہم تقریبا 3گھنٹے میں منڈی بہائوالدین شہر اورسیز ہسپتال کی افتتاحی تقریب میں موجود تھے ہمارا استقبال مسکراتے چہرے کے ساتھ میزبان ناصر عباس تارڑ بانی اور سیز ہسپتال نے کیا ہم ہال میں داخل ہوئے کیا دیکھا کہ افتتاحی تقریب میں میلہ کا سماں تھا اس اہم تقریب میں ملک بھر سے معروف سماجی، سیاسی اور کاروباری شخصیات سمیت سینئر صحافی شریک تھے۔ اس علاقہ سے تعلق ہونے کی وجہ سے میرے لئے ناصر عباس تارڑ اور ان کے سماجی کام کوئی نئی بات نہیں تھی ناصر عباس تارڑ ایک اورسیز پاکستانی ہیں جن کا تعلق ضلع منڈی بہائوالدین سے ہے وہ گزشتہ چند سال سے اپنے ضلع کے عوام میںغربت و افلاس کو کم کرنے اور انہیں تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولت فراہم کرنے کیلئے کوشاں ہیں اورسیز ہسپتال کا قیام بھی اس سلسلہ کی کڑی ہے اورسیز ہسپتال میں غریب عوام کو علاج کی مفت سہولت فراہم کی گئی ہے میر ے علم کے مطابق اس سے قبل ناصر عباس تارڑ نے ضلع میں ایک منفرد تعلیمی ادارہ بھیقائم کرنے کی کوشش کی بلا شبہ وہ شکوہ ظلمت شب کی بجائے اپنے حصہ کی شمع جلانے میں مصروف ہیں اس تقریب کی اہم بات ضلع کے دور افتادہ علاقوں سے اورسیز پاکستانی کے والدین کا پیرانہ سالی کے باوجود بڑی تعداد میںشریک ہو نا تھا نوجوان نسل کی بھی بھر پور نمائندگی تھی جو کہ ایک خوش آئند ٹرینڈ ہے ،اگر غور کیا جائے ہمیں معلوم ہوگا کہ اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ نوجوان نسل اوربزرگوں میں سوچ کی ہم آہنگی کا نہ ہونا ہے ٹیکنالوجی کے منفی استعمال نے دوجنریشنز کے درمیان فاصلے بڑھا دیئے ہیں اور یہ فاصلے ہمیں بڑے شہروں میں زیادہ نظر آرہے ہیں جس کی وجہ سے دونوں جنریشنز کے خیالات اور سوچ میں ہم آہنگی نہیں،ضلع منڈی بہائوالدین کے نوجوانوں کی بڑی تعداد روزگار کے سلسلہ میں دیار غیر میں مقیم ہے جو کہ ملک میں بھاری زرمبادلہ ارسال کر رہی ہے ان کیلئے اپنے ضلع میں تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کیلئے کام کرنا ایک اعزاز کی بات ہے ناصر عباس تارڑ کا فوکس ضلع منڈی بہائوالدین اور اورسیز پاکستانی ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ اورسیز پاکستانیز کے ریسورس کا درست استعمال ضلع کے بنیادی مسائل کو حل کئے جاسکتے ہیں اور یہ ایک ایسا کامیاب ماڈل ہوگا جو کہ ملک بھر میں قابل تقلید ہوگا۔ ہمارے ملک میںعالمی اور قومی سماجی تنظیموں کا ایک مضبوط نیٹ ورک موجود ہے ایسی تنظیمیں بلا شبہ نوبل کاز کیلئے اپنے دائرہ کار میں رہتے فلاحی کام میں مصروف ہیں لیکن کسی بھی پراجیکٹ پر اس کی روح کے ساتھ عملدرآمد ان کے بس کی بات نہیں کیونکہ اسے لوکل کمیونٹی کی اونر شپ حاصل نہیں ہوتی جس کی وجہ کئی مقامات پر ان کے بڑے بڑے پراجیکٹ محض ریسورس کا ضیاع نظر آتے ہیں اگر ہر ضلع میں ایک مضبوط سماجی لوکل تنظیم کا سیٹ اپ موجود ہو اور اسے اس ضلع کے اورسیز پاکستانیز کی سپورٹ حاصل ہو اس سے نہ صرف ہر ضلع کے بنیادی مسائل حل ہونا شروع ہوجائیں گے بلکہ عالمی و قومی سماجی تنظیموں کو بھی ایک مضبوط نیٹ ورک مل جائے گاجس کے ذریعہ سے وہ اپنے پراجیکٹ پر موثر عملدرآمد کو بھی یقینی بنا سکیں گی ،مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ناصر عباس تارڑکا اپنے ضلع کی ہر یونین کونسل میں کسی ایک سماجی تنظیم سے رابطہ ہے اور وہ اپنے تمام پراجیکٹ پر موثر عمل درآمد ان لوکل سماجی تنظیموں کے ذریعہ ہی ممکنبناتے ہیں اس سے جہاں پراجیکٹ کی لوکل اونر شپ ڈویلپ ہوجاتی ہے وہاں اس پر اخراجات بھی کم سے کم آتے ہیں آج ضرورت اس بات کی ہے جہاں فلاحی کاموں کا دائرہ کار بڑھایا جائے وہاں حق دار تک اسکا حق پہنچانے کیلئے لوکل کیمیونٹی کے مخلص افراد کی خدمات حاصل کی جائیں اور ریسورس کی فراہمی اور مسائل کے حل کیلئے ناصر عباس تارڑ ماڈل کو اپنایا جائے کہ ہر ضلع کے اورسیز پاکستانیز سے ریسورس جمع کرکے وہاں کے مسائل حل کئے جائیں۔