موجودہ حکومت کا 16ماہ کا دور اختتام پذیر ہوا چاہتا ہے ان 16ماہ میں اس حکومت نے وہ کام کیے ہیں جو پہلی حکومتیں تین تین چار چار سال اور پانچ پانچ سال کی مدت میں بھی مکمل نہیں کرپائیں۔ ڈالر کا ریٹ 180سے 290تک چلا گیا ،پٹرول کی قیمت جو 150روپے پہ تھی اب 273روپے ہے ،گندم کی قیمت 2300 روپے سے چار ہزار روپے پہ چلی گئی ہے بلکہ اس وقت مارکیٹ میں گندم کا ریٹ 4500روپے فی من سے زیادہ ہے اور بجلی کا کیا رونا رویا جائے اس نے تو سب گھروں میں اندھیر ڈال دیا ہے، چاہے کوئی غریب گھر ہے یا کوئی امیر ۔ 30سے 40فیصد کل آمدنی کا بل کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے 200یونٹ سے زیادہ استعمال کرنے پر کہنے کو تو 22روپے یونٹ پڑتا ہے مگر حقیقت میں وہ کوئی 30روپے سے اوپر چلا جاتا ہے اگر کسی گھر میں 300یونٹ سے زائد استعمال ہوتے ہیں تو اس کا ایک یونٹ جو ہے 40روپے کے لگ بھگ ہے اب غریب سے غریب ادمی کا بل 10ہزار کے لگ بھگ ہے اور جو لوئر مڈل کلاس ہے ان کے بل 25سے لے کے 40ہزار روپے کی رینج میں ہے۔ اب گھروں کی اکانومی کا بھی وہی حال ہوگا جو پاکستان کا ہے کہ جو ٹوٹل آمدنی ہے وہ قرضوں میں چلی جائے گی، سود کی ادائیگی میں چلی جائے گی اور خرچہ کرنے کے لیے کچھ نہیں رہے گا اسی طرح اب ایک وہ فردجس کے پاس اپنا مکان نہیں ہے کرایہ اور بل دینے کے بعد اس کے پاس سب کچھ نہیں بچتا۔اس حکومت نے ایک اور کام بھی بہت زیادہ کیا ہے اپنے آخری ہفتہ میں اتنے زیادہ قوانین منظور کی کہ ایسے لگتا تھا جیسے کوئی فیکٹری اپنے فل سیزن پہ چل رہی ہو ۔ہر قسم کی قانون سازی جس سے عوام کو دبایا جا سکے اور اشرافیہ کو سہولتیں دی جا سکیں ۔ نگران وزیراعظم کاشوشہ بھی بڑے دنوں سے چل رہا ہے جب یہ کالم شائع ہوگا اس وقت تک بلی تھیلے سے باہر آ چکی ہوگی ۔اب ایک سابق سفارت کار جلیل عباس جیلانی کا نام بھی بطور نگرن وزیر اعظم سامنے آ رہا ہے۔ عمران خان صاحب بھی اب خاص وزیراعظم کی لسٹ میں آگئے ہیں ۔پاکستان کی سیاست میں عام وزیراعظم وہ ہوتا ہے جو ایوان اقتدار سے گھر کو چلا جائے اور خاص وزیراعظم وہ ہوتا ہے جو ایوان اقتدار سے جیل چلا جائے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو، نواز شریف یہ وہ وزیراعظم ہیں جو وزارتی عظمی کے بعد جیل پہنچے۔ اب عمران خان کا سر بھی فخر سے بلند ہوگا کہ ان کی سیاست کی تعلیم مکمل ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست دان اس وقت تک معتبر نہیں ہوتا جب تک وہ جیل نہیں جاتا۔ا ب عمران خان کی گرفتاری کا کیا رد عمل ہوگا ۔ابھی اس پہ کچھ نہیں کہا جا سکتا وقتی طور پہ تو لگ رہا ہے کہ سب کچھ سکون میں ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ عمران خان کی ضمانت جلد ہو جائے اور وہ توشہ خانہ کے اس کیس سے رہا ہو جائیں لیکن وہ کتنے دن باہر رہ سکتے ہیں۔ 100سے اوپر کیس ان پر ہیں کسی نہ کسی کی اس میں تو ان کو جیل جانا ہوگا اور ان کے جیل جانے کے بعد ہی پاکستان میں الیکشن کے بارے میں کوئی حتمی بات کی جا سکتی ہے اس وقت جو مردم شماری کا شوشہ چھوڑا گیا ہے اس سے صاف نظر آرہا ہے کہ پاکستان میں الیکشن 2023میں شاید نہیں ہونگے۔ ایک لمبا نگران سیٹ اپ وجود میں آ سکتا ہے اس وقت لگ رہا ہے کہ پلڑے برابر کرنے کا 50فیصد کام ہو گیا ہے جس طرح نواز شریف اقامہ پہ جیل گئے تھے اسی طرح عمران خان توشہ خانہ کیس میں جیل گئے ہیں، مگر فرق یہ ہے کہ عمران خان کو اٹک جیل میں رکھا گیا ہے جو کہ عام طور پر باغی سیاست دانوں کی رہائش گاہ ہے۔ 1997ء جب نواز شریف اقتدار میں آئے اور 1999میں مشرف نے ان کی حکومت کو برطرف کیا تو ان کو بھی اٹک جیل میں ڈالا گیا تھا۔ نواز شریف اٹک جیل سے سیدھے سعودیہ چلے گئے تھے۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ عمران خان اٹک جیل میں ہی رہتے ہیں کہ یا یہاں سے سیدھے لندن جاتے ہیں ،ابھی پلڑا مکمل طور پہ بیلنس نہیں ہوا ۔یہ پلڑا اس وقت بیلنس ہوگا جب نواز شریف واپس وطن آئیں گے اور نواز شریف وطن کب آئیں گے اس کے بارے میں کچھ اشارے ہمیں حکومتی ذرائع سے ملتے ہیں۔ ایک صاحب ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہہ رہے تھے کہ ڈیڑھ دو مہینہ لگے گا اس کے بعد نواز شریف پہ مقدمات ختم ہو جائیں گے اور وہ واپس آ جائیں گے، پاکستان میں کچھ بھی بعید نہیں بالکل مغلیہ خاندان کے زوال کی کہانی ہے کہ ایک شہزادہ جیل سے تخت پہ چلا جاتا تھا اور دوسرا شہزا تخت سے تختہ پر چلا جاتا تھا یا جیل میں ڈال دیا جاتا تھا‘ نہ جیل والے کو علم ہوتا تھا کہ اس کی قید کب ختم ہوگی اور نہ تخت پہ بیٹھنے والے کو پتہ ہوتا تھا کہ اس کی بادشاہت کب ختم ہوگی۔ پاکستان میںاس وقت ناں قیدی کو پتہ ہے اور نہ حاکم کو پتہ ہے۔وہ تو بس جس کے ہاتھ میں ڈور ہے وہی جانتا ہے کہ کب قیدی حاکم بن جائے اور کب حاکم قیدی بن جائے اب کچھ لوگ شور مچائیں گے کہ 90دن میں الیکشن ہونی چاہیے۔ آئین کی خلاف ورزی پاکستان میں کب نہیں ہوئی جب دل کرتا ہے آئین کو پنجرے میں بند کر دیتے ہیں اور جب دل کرتاہے اس کو پنجرے سے نکال کے عوام پہ چھوڑ دیا جاتا ہے پاکستان کاآئین ایک پالتو شیر ہے جس کو مکمل طور پہ سدھایا جا چکا ہے۔