دنیا بھر کے ماہرین معاشیات اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی کا تعلق اس کے نظام صحت پر منحصر ہوتا ہے۔شاید اسی لئے بابائے میڈیسن سر ویلیم اوسلر نے کہا تھا کہ ایک ڈاکٹر مرض کا علاج کرتا ہے جبکہ ایک اچھا ڈاکٹر مریض کا علاج بھی کرتا ہے۔ یہ پاکستان کے نظام صحت کا ہی شاخسانہ ہے کہ یہاں ہر شخص زندہ وجود تو رکھتا ہے مگر خوشحال و مطمئن انسان نہیں۔محتاط اندازے کے مطابق 30 فیصد لوگ سماجی اور معاشرتی مسائل کی وجہ سے نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہیں، رہی سہی کسر غربت اور مہنگائی نے نکال دی ہے۔ ان حالات میں امیر تو دولت کے بل بوتے پر علاج کرا لیتے ہیں مگر غریب لوگ معالجین کی بے حسی کی وجہ سے موت کے انتظار کی اذیت برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ اسے اشرافیہ کی بے حسی کہیئے یا پھر پاکستانیوں کی بدقسمتی کہ پاکستان میں ایسے ڈاکٹروں کے نام انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جو مرض کا علاج کرنے کے ساتھ مریض کا بھی علاج کرتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی اکثریت مسیحائی کو پیسہ کمانے کا پیشہ بناتے ہوئے ہے۔ سرکاری ہسپتال انتظامیہ کی عدم توجہی اور پروفیسر صاحبان کی بے حسی کی وجہ سے مقتل گاہ بن چکے ہیں۔ ایک وقت تھا میو ہسپتال میں ہزاروں ڈاکٹرز اور سینکڑوں پروفیسر تھے مگر ایک پروفیسر ڈاکٹر عیس محمد تھے جو نہ صرف مریض کو اپنے جیسا انسان سمجھ کر اس کا درد محسوس کرتے تھے بلکہ مشہور ہے کہ شام کو کلینک پر مریضوں کو چیک کرنے بیٹھے تو کچھ کمانے کے بجائے الٹا جیب خالی کر آتے۔ عیس محمد ڈاکٹر ہاسٹل میں کلینک پر بیٹھتے جو مریض آتے ان کو سیمپلز کے علاوہ بازار سے خریدی ہوئی دوائیاں ہی مفت نہیں دیتے بلکہ اگر محسوس کرتے کہ مریض کے لواحقین غریب ہیں تو ان کو جانے کا کرایہ بھی دے دیتے۔ اسی طرح ایک نام پروفیسر ڈاکٹر عمران محفوظ کا ہے موصوف شدید گرمی اور حبس میں آئوٹ ڈور میں مرض کے ساتھ مریض کا بھی علاج کرتے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ راہ چلتے کوئی مریض مل جائے تو رک کر اس کا حال پوچھتے ہیں۔ پرائیویٹ کلینک بھی کرتے ہیں مگر فیس کے لئے نہیں۔ قناعت پسندی کا یہ عالم کہ ہسپتال اور انتظامیہ کی جانب سے سہولیات کی عدم فراہمی کا شکوہ کرنے کے بجائے اپنا کام خاموشی سے کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جنرل ہسپتال میں چند دن گزارنے کا تجربہ ہوا ۔ہسپتال کا احوال انہی سطور میں بیان کیا تھا لیکن ایک شخص کا دانستہ طور پر تذکرہ نہیںکیا مقصد ہزار برائیوں میں ایک اچھائی کا ذکر کرنے سے گریز تھا۔ پروفیسر خالد کاظمی جنرل ہسپتال کے شعبہ ہڈی و جوڑ یونٹ ٹو کے ہیڈآف ڈیپارٹمنٹ ہیں۔پرائیویٹ کلینک بھی کرتے ہیں بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہوا تو اسے سائرہ میموریل ہسپتال میں لے جانا پڑا وہاں مریض کو چیک کرنے کے لئے ڈاکٹر خالد کاظمی کو بلایا گیا انہوں نے مریض چیک کیا۔ ذرائع آمدن کے بارے میں دریافت کیا تو کہنے لگے انہیں جنرل ہسپتال میں داخل کر دیتا ہوں آپ مطمئن رہیں وہاں علاج کسی بھی نجی ہسپتال سے بہتر ہو گا۔ بچہ جوان ہے جلد پائوں پر کھڑا ہو جائے گا۔7جولائی کو جنرل ہسپتال میں گئے تواگلے روز ہفتہ کے دن کے لئے آپریشن لسٹ پر رکھ لیا گیا۔ مائیکرو سکوپک سرجری تجویز کی گئی تھی جو انہوں نے خود کرنا تھی۔ ہفتے کے دن صبح 5بجے ہی طوفانی بارش شروع ہو گئی لاہور کی سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کر رہی تھیں ان حالات میں بظاہر یہی محسوس ہو رہا تھا کہ آپریشن موخر کر دیے جائیں گے۔9.30 پر مریضوں کو تھیٹر منتقل کرنا شروع کیا گیا اور بتایا گیا کہ ڈاکٹر خالد کاظمی کا فون آیا ہے کہ ان کی کار کلمہ چوک انڈر پاس پر پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے بند ہو گئی ہے اور وہ رکشہ پر ہسپتال آ رہے ہیں۔ آپریشن آج ہی ہوں گے۔9.30 پر ڈاکٹر خالد آپریشن تھیٹر میں تھے۔ 8مریضوں کی سرجری کی اگلے روز رائونڈ پر آئے ہر مریض کو دیکھا ۔ شکریہ ادا کیا تو کہنے لگے اگر صرف آپ کا بچہ ہی لسٹ پر ہوتا تو شاید نہ آتا کیونکہ اس کا آپریشن ڈیلے کیا جا سکتا تھا دو مریض ایسے تھے جو پچھلی لسٹ سے ڈراپ ہو گئے تھے اگر آج بھی آپریشن موخر کر دیے جاتے تو درجنوں مریض متاثر ہوتے اور لسٹ بڑھتی جاتی، مریض خوار ہوتے۔ پہلے ہی لوگ گھر کا سامان بیچ کر ہسپتال میں مریض لے کر آتے ہیں۔ گزشتہ روز بچے کولے کر فالو اپ کے لئے جنرل ہسپتال جانا ہوا تو مریض چیک کرنے کے بعد فرمانے لگے تحریر پڑھی تھی شکایات بھی جائز تھیں، آپ نے جو مسائل بیان کئے وہ درست ہی نہیں بلکہ میرے علم میںبھی ہیں۔کہنے لگے جب پڑھنے باہر گیا تھا اس وقت ہمیں ڈاکٹر ڈیوڈ بی ناش کا یہ قول بھی پڑھایا گیا تھا کہ مریض کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ آپ ڈاکٹری میں کس قدر ماہر ہیں جب تک کہ علاج کے دوران وہ یہ محسوس نہ کرے کہ آپ اس کی کتنی کیئر کر رہے ہیں۔ مجھے وارڈ کا انتظام سنبھالے دو ماہ بھی مکمل نہیں ہوئے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ بننے کے بعد مسائل کا احساس ہوا وہ مصحفی غلام ہمدانی نے کہا ہے نا: مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا سرکاری ہسپتال ہے یہاں کام کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ چیزوں کو ایک ترتیب کے ساتھ آگے بڑھانا ہوتا ہے۔ کوشش ہے کہ میرے ڈیپارٹمنٹ کی حد تک لوگوں کو احساس دلایا جائے کہ سرکاری ہسپتال میں نجی ہسپتال سے بہتر علاج ہوتا ہے۔ ایک ہائوس افسر کے پاس چھ سے آٹھ مریض ہوتے ہیں اس کے اوپر پی جی پھر رجسٹرار، سینئر رجسٹراور پھر ، اے پی، ایسوسی ایٹ پھر پروفیسر آتے ہیں۔ ہم نے رائونڈ کے بعد ہائوس آفیسر کومریض کی کونسلنگ کی ذمہ داری سونپی ہے۔کوشش ہے کہ مریض کو بہترین علاج کے ساتھ ورثا کی تسلی کا بھی اہتمام ہو۔ اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ کوئی وارڈ بوائے اور سویپئر مریض کے ورثا سے نذرانہ نہ لے مگر کیا کریں کچھ مریض خود پیسے دیتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر عیس محمد ڈاکٹر عمران محفوظ اورڈاکٹر خالد کاظمی کی طرح ہر ڈاکٹر مریض کو انسان سمجھ کر اس کا درد محسوس کرنے لگے تو پاکستان کا نظام صحت ترقی یافتہ ممالک سا نہ سہی مگر انسان دوست ضرور بن سکتا ہے۔