سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم امت اسلامیہ کا ایک عظیم سرمایہ تھے۔ وحدت اسلامیہ اور مسلمانوں کی سربلندی کے لئے سے ان کی کاوشیں ہمیشہ یادرکھیں جائیں گی۔ان کی وفات سے مسلم امہ بالخصوص پاکستان میںایک ایسا خلا پیدا ہوا ہے جس کو پر کرنا مشکل نظر آ رہا ہے۔ پاکستان میں فرقہ واریت کے نام پر پیدا ہونے والی خوفناک صورتحال کے خاتمے اور مختلف مکاتب فکر کے مابین وحدت و ہم آہنگی قائم کرنے کیلئے قاضی حسین احمد صاحب نے گراں قدر خدمات انجام دیں اور عالمی اسلامی تحریکوں کے حوالے سے ان کا کردار قابل رشک رہا۔روس کے خلاف افغان جہاد ہو یا کشمیرکاز، فلسطینی تحریک ہو یاچ چیچنیاکی جدوجہد آزادی ، ایران وعراق جنگ ہو یابوسنیا ئی مسلمانوں کا قتل عام، قاضی حسین احمد مرحوم کی بے کلی ،تگ ودواورانکی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ مرحوم نے پاکستان میںجماعت اسلامی کی سیاست کے فروغ اور حلقہ اثر کی توسیع میں نہایت اہم کردار ادا کیالیکن ان کی وفات کے بعدجماعت اسلامی پاکستان میں وہ ولولہ نہیں دکھائی دیا جوان کے دور میں جماعت میں موجود تھا۔ قاضی حسین احمدپاکستان میں اور پھر دنیائے اسلام میں اسلامی انقلاب کے عملی داعی تھے اور پاکستان میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کی ان کی خواہش جنون کی سرحدوں کو چھوتی نظر آتی تھی لیکن جدوجہد کے باوجودانہیں اپنی زندگی میں اسلامی انقلاب دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ قاضی حسین احمد 12جنوری 1938 نوشہرہ کے گائوں زیارت کاکا صاحب میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد قاضی محمد عبد الرب ایک ممتاز عالم دین تھے۔قاضی صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر حاصل کی۔پھر اسلامیہ کالج پشاور سے گریجوایشن کے بعد پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کی۔وہ سیدو شریف کالج میں بطور لیکچرار تعینات رہے اور تین سال تک پڑھاتے رہے لیکن جماعتی سرگر میوں ا ور اپنے فطری رجحان کا باعث ز زیادہ دیر تک ملازمت جاری نہ رکھ سکے اور پشاور میں اپنا کاروبار شروع کر دیا جہاں وہ سرحد چیمبر ٓآف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ دوران تعلیم اسلامی جمعیت طلبہ سے منسلک رہنے کے بعد وہ 1970 میںجماعت اسلامی کے رکن بنے ۔1978 جماعت کے سیکرٹری جنرل اور 1987 میں امیر جماعت منتخب ہوئے۔ جماعت اسلامی پاکستان میںقاضی حسین کا دورامارت پاکستان کی تاریخ کا ہنگامہ خیز دور ہے۔ وہ اپنی فطرت کے اعتبار سے مضطرب انسان تھے۔سپاہیانہ جلال اور درویشانہ جمال کا ایسا خوبصورت امتزاج کہ نوجوانوں کو بھی رشک آتا، اور بڑے بوڑھے بھی عقیدت میں سرمست رہتے!انہوں نے جنرل ضیا الحق کے عہد میں جماعت کی قیادت سنبھالی اور مارچ 2009 تک اس منصب پہ فائز رہے۔ سید مودودیؒاور میاں طفیل محمد ؒ جیسی قدآور شخصیات کے بعد جماعت کی امارت سنبھالنا کوئی سہل کام نہ تھا ،لیکن قاضی صاحب نے یہ ذمہ داری اس آن بان اورشان کے ساتھ نبھائی کہ ایک عالم ان کی صلاحیتوں کا معترف ٹھہرا! کھری اور دو ٹوک بات کہنے اور اپنے موقف پر ڈٹ جانے کی خوبی نے ان کی شخصیت کی طرح داری کا رنگ اور بھی گہرا کردیا۔ بلا کے بے خوف اور نڈر انسان تھے۔ بلاشبہ ان کی جبیں اس سجدے سے آشنا تھی جو ہزار سجدوں سے نجات دلا دیتا ہے۔ قاضی صاحب نے جہاد افغانستان کی کامیابی کے لئے عالم اسلام کے ہر خطے میں امید کے نئے دیے روشن کیے اور کشمیرکاز کوپاکستان کی قومی یکجہتی کا ذریعہ بنادیا۔ انہوں نے 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر تجویز کرکے پوری قوم کو کشمیر کی پشت پر کھڑا کر دیا اور ان کی سفارش پر اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور حزب اختلاف کے رہنما میاں نواز شریف کو بیک وقت یوم یکجہتی کشمیر منانے کی تجویز دی جو انہوں نے تسلیم کرلی۔ اس کے بعد سے آج تک یوم یکجہتی کشمیر اہلِ پاکستان کے اتحاد اور یکجہتی کی علامت بن گئی ہے۔ قاضی حسین احمد تمام جماعتوں پر مشتمل پارلیمانی وفد کے لیے عالم اسلام کے دورے پر گئے اور مسلمان ممالک کی قیادت اور عوام کو مسئلہ کشمیر سے آگاہ کیا۔ انہوں نے ہی اہلِ پاکستان کو سرزمین یورپ کے واحد مسلمان اکثریتی ملک بوسنیا ہرزیگوونیا کے مسلمانوں کی نسل کشی کے واقعات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے پہلے مسلمان رہنما کی حیثیت سے بوسنیا کا دورہ کیا بوسنیا کی مسلمان قیادت کو اہل پاکستان سے آگاہ کیا۔وہ نسلی، مسلکی، لسانی، علاقائی ، صوبائی اور جغرافیائی قومیتوں کے پرچارک سیاستدانوں کے جارح نقاد تھے۔ ان کے نزدیک عصبیت پر مبنی سیاست کسی بھی قوم کے شجر سلامتی کی جڑوں کے لیے دیمک کا کردار ادا کرتی ہے۔ ان کا وجود قحط الرجال کے اس عہد میں ایک نعمت غیر مترقبہ تھ سے کم نہ تھا۔ 2002ء میں قاضی حسین احمد کی کوششوں کے نتیجے میں دینی جماعتوں کا اتحاد’’متحدہ مجلس عمل‘‘ قائم ہوا۔ اس اتحاد نے انتخابات میں بے مثال کامیابی حاصل کی۔ نومبر2012 کے وسط میں انہوں نے اسلام آباد میں ایک کامیاب اتحاد امت کانفرنس کا انعقاد کیا۔ان کی طرف سے جو چار نکات پیش کیے گئے ان میں باہمی اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا، خطبات جمعہ میں ہم آہنگی اور ان میں علمی گہرائی پیدا کرنا، اسلامی نظریاتی کونسل کی متفقہ طور پر منظور شدہ سفارشات کو نافذ کرنا اور آخر میں مختلف فقہ کے لوگوں کو قریب لانا اور ایسا ماحول پیدا کرنا کہ وہ اختلافات کو نظر انداز کریں اور مشترکات پر زور دیں، شامل تھے۔ قاضی صاحب تا دم آخر اسلام ،پاکستان اور اقمت مسلمی کی فلاح اور ترقی کے لئے کام کرتے رہے ۔ ملکی تاریخ میں ان کی دینی، ملی و سیاسی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ٭٭٭٭٭