سابق وزیراعظم او رپاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی احاطہ عدالت سے گرفتاری کے بعد سے ملک بھر کے کئی شہروں میں پر تشدد احتجاج اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے، تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی،اسد عمر کو بھی گرفتار کر لیا گیاہے۔ گزشتہ روز عمران خان کی گرفتاری کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے گرفتاری کو جائز قرار دے دیا۔جبکہ سپریمکورٹ نے رہائی کا حکم دے دیا، گزشتہ شب لاہور میں زمان پارک کے پچھلی طرف راستے بند کر دئیے گئے ، ڈنڈار بردار کارکنان سڑکوں پر موجود رہے، ڈنڈا بردار کارکنان نے گاڑیوں پر ڈنڈے برسائے اور ایمبولینس کا راستہ بھی روکا ۔احتجاج کی تفصیلات اس طرح ہیں کہ ملک کے مختلف حصوں میں پی ٹی آئی کارکنان احتجاج کے دوران عمارتوں، املاک اور عوامی مقامات پر حملہ آور ہوئے ، پی ٹی آئی کارکنان نے توڑ پھوڑ،جلائو گھیرائو اور پتھرائو بھی کیا جب کہ اس دوران 28 گاڑیاں اور ایک اسکول جلا دیاگیا،پر تشدد واقعات میں 3 افراد جاں بحق جبکہ ڈی آئی جی آپریشن ،ایس پی کینٹ لاہور اور پولیس اہلکاروں سمیت110سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں، تمام تعلیمی ادارے تین روز کے لیے بند کرتے ہوئے میٹرک امتحانات بھی ملتوی کردئیے گئے ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے بعد دفعہ 144نافذ کردی گئی ہے۔ تشدد کے واقعات ملک و قوم کیلئے کسی طرح بھی سود مند نہیں ، نقصان کا خمیازہ آخر کار غریبوں کو ہی ادا کرنا ہوگا، ٹرانسپورٹ ، ریل گاڑیاں بند ہیں، ملک میں انٹرنیٹ کی بندش سے افواہیں جنم لے رہی ہیں، امتحانات کے التوا سے بچوں کی تعلیم کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔ عمران خان کا جرم کیا ہے؟ دراصل ہمارے ہاں جرم کچھ ہوتا ہے اور الزام کچھ اور لگتا ہے، نیب کی طرف سے عمران خان کی گرفتاری کا جرم یہ بتایا گیا ہے کہ القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے قیام کے لئے عمران خان پر اربوں روپے مالیت کی458کنال 4 مرلے اور 58فٹ زمین ایک نجی ہائوسنگ سوسائٹی سے لینے کا الزام ہے۔ عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ کا کیس اکتوبر 2022ء میں درج ہوا، برسراقتدار آنے کے بعد پی ڈی ایم والوں نے نیب میں ترامیم کیںجس کے باعث ان کے بہت سے کیس ختم ہوئے اور وہ بے قصور ٹھہرے ، اب یہ خبر آئی ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے وزیر اعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز سمیت دیگر کو منی لانڈرنگ کیس میں بے گناہ قرار دے دیا ہے۔ حالات کو اس حد تک لانے میں عمران خان کا اپنا قصور بھی ہے ، ان کی سیاسی سوچ اور ضد کی وجہ سے انہوں نے خود ہی پی ڈی ایم والوں کے لئے راستے ہموار کئے ، خود ہی پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی اسمبلیاں توڑ کر اپنے لئے مشکلات پیدا کر بیٹھے اور جن لوگوں نے جیل میں جانا تھا وہ تخت نشین ہو گئے۔ ایک سال سے جاری اقتدار کی کشمکش میں قوم کا برا حال ہو گیا ہے، ہر آئے روز بحران پر بحران جنم لے رہے ہیں، مستقبل میں اندھیرے کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا، آگے کیا ہوگا ، کسی کو کوئی پتہ نہیں، ملک میں قیادت کا فقدان ہے، حالات و واقعات کو سنبھالنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ۔ملک کے اہم اداروں کی سیاسی معاملات میں مداخلت کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے جو کہ نیک شگون نہیں ہے۔ عدالتی نظام پہلے ہی بہت کمزور تھا اُسے مزید کمزور کرنے کیلئے اسمبلیوں میں بل لائے جا رہے ہیں۔ پہلے بھی نظریہ ضرورت نے بہت سی برائیوں کو پروان چڑھایا، اب مزید خطرات بھی پیدا ہو چکے ہیں۔ انگریز دور کی پروردہ بے لگام بیورو کریسی ہر مشکل وقت میں اپنا کام نکالتی ہے، ملک و قوم کی بہتری کی کسی کو پرواہ نہیں، ملک میں کبھی آزادانہ الیکشن نہیں ہوئے اور جمہوریت بھی نام کی ایک شے ہے، اب ہر آدمی سوال کر رہا ہے کہ آگے کیا ہوگا،کیا الیکشن ہوں گے ؟ جنرل ضیاء سے جب الیکشن کے بارے میں پوچھا جاتا کہ الیکشن کب ہوں گے تو وہ کہتے جب تک ’’مثبت نتائج ‘‘برآمد نہیں ہوں گے تب تک الیکشن نہیں کرائے جا سکتے ۔ مثبت نتائج سے ان کی کیا مراد تھی ،یہ کوئی ایسا سوال نہیں جس کے بارے میں سب نہ جانتے ہوں۔ اب بھی ملک میں الیکشن اُس وقت ہوں گے جب مثبت نتائج کی توقع ہو گی لیکن مسائل کا حل جمہوریت ہے اور جمہوریت بھی وہ جس میں عوام کی حاکمیت تسلیم کی جائے، محکوموں کو حکمران بنایا جائے، غربت اور پسماندگی کا خاتمہ ہو اور ملک میں بسنے والے تمام طبقات کو بلا رنگ و نسل و مذہب برابر کے حقوق حاصل ہوں ۔ قانون کہتا ہے کہ کسی ملزم کو احاطہ عدالت سے گرفتار نہ کیا جائے مگر عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطہ میں بائیومیٹرک کراتے وقت گرفتار کیا گیا، اگر گرفتار ہی کرنا تھا تو آئین اور قانون کے مطابق کرنا چاہئے تھا، اس اقدام سے ملک و قوم کی بدنامی ہوئی ہے۔ وسیب کے مختلف طبقات کی طرف عمران خان کی گرفتاری پر مذمت کا اظہار کیا گیا ہے تاہم سرائیکی جماعتوں کے الائنس کی طرف سے کہا گیا ہے کہ عمران خان کو قدرت کی طرف سے بیوفائی کی سزا مل رہی ہے، مزید کہا گیا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے موقع پر ان کے ساتھ روا رکھے گئے بہیمانہ سلوک کی مذمت کرتے ہیں ۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری کشمکش سے پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہو رہی ہے اور اس کا سب سے زیادہ نقصان غریب طبقات اُٹھا رہے ہیں،یہ وہی نیب ہے جو عمران خان کے دور حکومت میں سیاسی مخالفین سے وہی سلوک کرتی رہی ہے جو عمران خان کیساتھ ہوا ہے۔ مگر یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ اقتدار کیلئے سب خود کو پیش کرتے ہیں، عمران خان نے اقتدار کے ساڑھے تین سال کے دوران سرائیکی صوبے کا نام تک نہ لیا ۔عمران خان سے پہلے آصف زرداری اور نوازشریف اسی سزا سے دو چار ہو چکے ہیں، آخر میں یہی کہوں گا کہ سیاسی قیادت اور اداروں کو مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہئے اور ملک و قوم کی حالت زار پر رحم کرتے ہوئے افہام و تفہیم سے کام لینا چاہئے۔