بھارتی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کے حوالے سے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے ۔ اہل علم اس پر مضامین باندھ رہے ہیں جب کہ میرے جیسے طالب علم کی رائے آج بھی وہی ہے کہ بھارت ، بھارت کا آئین ، اس آئین کا آرٹیکل 370 یا پھر بھارت کی سپریم( ـ ہندتوا) کورٹ سب ہمارے لیے غیر اہم ہیں۔ ان میں سے کچھ بھی ہمارا پوائنٹ آف ریفرنس نہ کبھی تھا ، نہ ہے اور نہ ہی ہونا چاہیے۔ یہ بات میں نے اس وقت بھی لکھی جب پاکستان کی پارلیمان نے اپنی قرارداد میں غیر ضروری طور پر آرٹیکل 370 کا ذکر کیا اور یہ بات میں بعد میں بھی تواتر کے ساتھ لکھتا رہا کہ کشمیر کا مقدمہ بھارت کے آئین کے کسی آرٹیکل کی تقدیس کا مقدمہ نہیں ہے نہ ہی یہ بھارتی قانون اور بھارتی آئین کے مطابق لڑا جائے گا اور نہ ہی ہمارے لیے اس سارے معاملے میں بھارتی سپریم کورٹ کی کوئی حیثیت ہے۔ جو لوگ اس معاملے کو بھارتی سپریم کورٹ لے گئے ، دستیاب آپشنز میں انہوں نے درست قدم اٹھایا کہ انہیں کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا۔ لیکن پاکستان کا معاملہ الگ ہے۔ پاکستان کے لیے آرٹیکل 370 کی نہ اس وقت کوئی حیثیت تھی جب یہ نافذہوا نہ اس وقت کوئی حیثیت تھی جب یہ پامال ہوا۔ کشمیر کا مقدمہ بھارتی آئین کا محتاج نہیں ہے ، نہ ہی یہ بھارت کی سپریم کورٹ کا محتاج ہے۔یہ مقدمہ بھارت کے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت نہیں لڑا جائے گا یہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور حق خود ارادیت کے آفاقی اصول کے تحت لڑا جائے گا ۔یہی بات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل 68 سال پہلے 30 مارچ 1951 ء کو اور پھر نومبر 1956 ء کو کہہ چکی ہے۔ آرٹیکل 370 کی حیثیت ہی کیا تھی؟ یہ تو شیخ عبد اللہ کی کشمیر فروشی کی ایک معمولی سی قیمت تھی جو بھارت نے ادا کی اور وقت بدلنے پر اسے واپس لے لیا۔ کشمیر کی قانونی حیثیت اس آرٹیکل سے کبھی مشروط تھی ہی نہیں۔ اس واردات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کے کشمیر پر قبضے کے تیسرے سال مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیا تا کہ ایک ’’آئین ساز اسمبلی‘‘ وجود میں آئے جو مقبوضہ کشمیر کا آئین تیار کرے۔ شیخ عبد اللہ نے الیکشن سے قبل ہی یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم جب جیت کر اسمبلی میں آئیں گے تو ہم بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیں گے اور اس اسمبلی کا یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کا استعمال سمجھا جائے گا۔ اس دوران معاملہ سلامتی کونسل پہنچ گیا کہ اقوام متحدہ کی قرارداد میں جو حق خود ارادیت کا ذکر کیا گیا کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی آئندہ قائم ہونے والی اسمبلی ایک فیصلہ کر دے اور اس فیصلے کو کشمیریوں کو حق خود ارادیت سمجھ لیا جائے؟ 30 مارچ 1951 ء کو سلامتی کونسل نے اس کا جواب ایک قرار داد کی شکل میں دیا اور کہا کہ کوئی آئین ساز اسمبلی کوئی اجلاس کرتی ہے اور اس میں وہ کشمیر یا اس کے کسی حصے کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اسے اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق حق خود ارادیت کا استعمال نہیں سمجھا جائے گا۔ ان انتخابات کا ٹرن آئوٹ صرف 5 فی صد تھا۔ بھارت نواز نیشنل کانفرنس نے 75 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور مضحکہ خیزی دیکھیے کہ 73 نشستوں پر یہ کامیابی بلامقابلہ تھی۔ اس نام نہاد اسمبلی نے اکتوبر 1956 ء میں یہ فیصلہ کر دیا کہ:’’کشمیر بھارت کااٹوٹ انگ ہے اور ہمیشہ بھارت کا اٹوٹ انگ رہے گا‘‘۔ اس کشمیر فروشی کے جواب میں بھارت نے شیخ عبد اللہ کو آرٹیکل 370 کا لولی پاپ تھما دیا۔اب بھارت اپنا لولی پاپ واپس لے چکا ہے اور بھارت نواز کشمیر فروش قیادت اب گھروں میں قید ہے۔ اس واردات کے بعد معاملہ پھر سلامتی کونسل جا پہنچا۔ نومبر 1956 ء میں سلامتی کونسل نے پھر ایک قرارداد کی صورت میں بڑے واضح طور پر قرار دے دیا کہ ایسی کوئی اسمبلی کشمیر یا اس کے کسی حصے کے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اسے اقوام متحدہ کے اصولوں اور قراردادوں کی روشنی میں حق خود ارادیت کا متبادل نہیں سمجھا جائے گا۔ آرٹیکل 370 کے ہونے سے کشمیر کی قانونی حیثیت پر کوئی فرق پڑا نہ ہی اس کے ختم ہونے سے۔ کشمیر اگر انٹر نیشنل لاء کی روشنی میں ایک حل طلب متنازعہ مسئلہ تھا تو یہ آرٹیکل 370 کی وجہ سے نہیں تھا کہ وہ آرٹیکل ختم ہو گیا تو اب کشمیر کی حیثیت بھی ختم ہو گئی۔ کشمیر کی حیثیت کا تعین اقوام متحدہ کی قراردادیں کرتی ہیں اور ان قراردادوں کے بارے میں سلامتی کونسل نے 1996 ء میں یہ فیصلہ سنا دیا تھا کہ جب تک پاکستان اور بھارت دونوں اتفاق نہیں کریں گے تب تک یہ قراردادیں سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود رہیں گی۔ جو مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہو اسے بھارتی آئین میں ترمیم کر کے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں ایک اور نکتہ بھی قابل غور ہے۔’’ویانا کنونشن آن دی لاء آف ٹریٹیز‘‘کے آرٹیکل 34 کے مطابق دو فریق ایک معاہدہ کر لیں تو تیسرا فریق اس کا پابند نہیں ہے۔یعنی مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی اسمبلی اور بھارت آپس میں کوئی معاملہ کر لیں تو نہ اقوام متحدہ اس کی پابند ہے نہ ہی پاکستان۔اور یاد رہے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر مسئلہ کشمیر کا عنوان ’’پاکستان اور بھارت کا تنازعہ‘‘ ہے۔جب تک اقوام متحدہ کی ہدایات اور طے کردہ اصولوں کی روشنی میں حق خود ارادیت کا اظہار نہیں ہوتا تب تک ایسے کسی بھی مشکوک فیصلے کی انٹر نیشنل لاء میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آرٹیکل 370 کو زیر بحث ضرور آ نا چاہیے۔ اس پر بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھی لازمی طور پر بات ہونی چاہیے لیکن اس گفتگو کا تناظر اور اس کا محور درست ہونا چاہیے۔یعنی مسئلہ یہ نہیں کہ ایک آرٹیکل 370 ؎ہوتا تھا جس کی حرمت مودی اور بھارتی سپریم کورٹ نے پامال کی ۔ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے کشمیر یوں کو حق خودرادیت دے رکھا ہے اور یہ آفاقی اصول ہے۔ اس کی نفی نہ کسی کشمیر فروش کو آرٹیکل 370 کا لولی پاپ دے کر کی جا سکتی ہے نہ اس کووقت پڑنے پر پامال کر کے اور نہ ہی بھارتی سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اس کے چارٹر کو پامال کرتے ہوئے کسی ایسے بندوبست کی توثیق کر دے جو کشمیریوں کو حق خود ارادیت سے محروم کرتا ہو۔ اقوام متحدہ کے ضابطوں اور انٹر نیشنل لاء کے مطابق کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے۔ یہ مقبوضہ علاقہ ہے ۔ کشمیر کے مستقبل کا تعین نہ بھارت کی حکومت کر سکتی ہے نہ بھارت کی سپریم کورٹ۔ یہ فیصلہ صرف اور صرف کشمیر کے عوام نے کرنا ہے۔اور یہ فیصلہ بھارت کے زیر اہتمام کسی انتخابی ڈرامے سے نہیں ہو گا۔ یہ فیصلہ استصواب رائے سے ہو گا جو اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو گا۔