بھٹو صاحب نے نیشنلائزیشن کے ذریعے جس معیشت کی چولیں ہلا دی تھیں ، آج اسی معیشت کو نجکاری کے ذریعے سنبھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کوئی ہے جو اس سارے عمل سے عبرت حاصل کرے ؟یہ کہانی میں نے 2019 ء میں لکھی تھی ، وقت کا تقاضا ہے اس کہانی کو ایک بار پھر آپ کے سامنے رکھا جائے۔ ایک و قت تھاپاکستان کی معاشی اٹھان شان دار تھی۔ساٹھ کی دہائی تک ہم اس مقام پر پہنچ گئے تھے کہ بیچ میں بھٹو کا سوشلزم نہ آتا تو آج دنیا میں ہم بہت آ گے ہوتے۔ پاکستان میں انڈسٹری فروغ پا رہی تھی۔ اسفہانی، آدم جی، سہگل، جعفر برادرز، رنگون والا، افریقہ والا برادرز جیسے ناموں نے پاکستان کو انڈسٹریلائزیشن کے راستے پر ڈال دیا تھا۔ دنیا پاکستان کو انڈسٹریل پیراڈائز کہا کرتی تھی۔ ماہرین کا کہنا تھا ترقی کی رفتار یہی رہی تو پاکستان ایشیاء کا ٹائیگر بن جائے گا۔یہاں فیکٹریاں، ملیں اور کارخانے لگ رہے تھے۔ بجائے ان کاروباری خاندانوں کے مشکور ہونے کے کہ وہ معاشی سرگرمی کو زندہ رکھے ہوئے تھے ہمارے ہاں سرمایہ دار کو دشمن سمجھا گیا۔رہی سہی کسر بھٹو کے سوشلزم نے پوری کر دی۔ ہمارے ہاں نظمیں پڑھی جانے لگیں ’’چھینو مل لٹیروں سے‘‘۔ حبیب جالب صاحب جیسے لوگوں نے سرمایہ دار کے خلاف لکھ لکھ کر اسے ولن بنا دیا۔کسی نے پلٹ کر نہ پوچھا کہ شاعر عوام صاحب ، مل کو اس کے مالکوں سے کیوں چھینا جائے؟ یہ شاعری نہیں تھی ، یہ فساد فی الارض تھا۔سستا سوشلزم۔ چنانچہ ایک دن بھٹو صاحب نے نیشنلائزیشن کے ذریعے یہ سب کچھ چھین لیا۔ لوگ رات کو سوئے تو بڑے وسیع کاروبار کے مالک تھے صبح جاگے تو سب کچھ ان سے چھینا جا چکا تھا۔ مزدور اور مالکان کے درمیان معاملات خراب تھے یا دولت کا ارتکاز ہو رہا تھا تو اس معاملے کو اچھے طریقے سے بیٹھ کر حل کیا جا سکتا تھا۔ مزدوروں کی فلاح کے لیے کچھ قوانین بنائے جا سکتے تھے لیکن بھٹو کا مسئلہ اور تھا۔ وہ مزدور اور کارکن کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ سرمایہ داروں کے خلاف انہوں نے انقلاب برپا کر دیا ہے۔ یہ تاثر قائم کرتے کرتے انہوں نے پاکستانی معیشت کو برباد کر دیا۔ بھٹو نے 31 صنعتی یونٹ، 13 بنک،14 انشورنش کمپنیاں،10 شپنگ کمپنیاں اور 2 پٹرولیم کمپنیوں سمیت بہت کچھ نیشنلائز کر لیا۔ سٹیل کارپوریشن آف پاکستان، کراچی الیکٹرک، گندھارا انڈسٹریز، نیشنل ریفائنریز، پاکستان فرٹیلائزرز، انڈس کیمیکلز اینڈ اندسٹریز، اتفاق فائونڈری، پاکستان سٹیلز، حبیب بنک، یونائیٹڈ بنک، مسلم کمرشل بنک، پاکستان بنک، بینک آف بہاولپور، لاہور کمرشل بنک، کامرس بنک، آدم جی انشورنس، حبیب انشورنس، نیو جوبلی، پاکستان شپنگ، گلف سٹیل شپنگ، سنٹرل آئرن ایند سٹیل سمیت کتنے ہی اداروں کو ایک حکم کے ذریعے ان کے جائز مالکان سے چھین لیا گیا۔ مزدوروں اور ورکرز کو خوش کرنے کے لیے سوشلزم کے نام پر یہ واردات اس بے ہودہ طریقے سے کی گئی کہ شروع میں کہا گیا حکومت ان صنعتوں کا صرف انتظام سنبھال رہی ہے جب کہ ملکیت اصل مالکان ہی کی رہے گی۔ پھر کہا گیا ان ان صنعتوں کی مالک بھی حکومت ہو گی۔ پہلے کہا گیا کسی کو کوئی زر تلافی نہیں ملے گا۔ پھر کہا گیا دیا جائے گا۔ کبھی کہا گیا مارکیٹ ریٹ پر دیا جائے گا پھر کہا گیا ریٹ کا تعین حکومت کرے گی۔ یوں سمجھیے ایک تماشا لگا دیا گیا۔ عمران خان کے مشیر رزاق دائود کے دادا سیٹھ احمد دائود کو جیل میں ڈال کر ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔ بعد ازاں وہ مایوس ہو کر امریکہ چلے گئے اور وہاں تیل نکالنے کی کمپنی بنا لی۔ اس کمپنی نے امریکہ میں تیل کے چھ کنویں کھودے اور کامیابی کی شرح 100 فیصد رہی۔ آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہم تیل کی تلاش کی کھدائی کے لیے غیر ملکی کمپنیوں کے محتاج ہیں۔ صادق دائود نے بھی ملک چھوڑ دیا، وہ کینیڈا شفٹ ہو گئے۔ ایم اے رنگون والا ایک بہت بڑا کاروباری نام تھا۔ وہ رنگون سے بمبئی آئے اور قیام پاکستان کے وقت سارا کاروبار لے کر پاکستان آ گئے۔ وہ یہاں ایک یا دو نہیں پینتالیس کمپنیاں چلا رہے تھے۔ انہوں نے بھی مایوسی اور پریشانی میں ملک چھوڑ دیا، وہ ملائیشیا چلے گئے۔ بٹالہ انجینئرنگ کمپنی والے سی ایم لطیف بھی بھارت سے پاکستان آ چکے تھے اور بادامی باغ لاہور میں انہوں نے پاکستان کا سب سے بڑا انجینئرنگ کمپلیکس قائم کیا تھا جو ٹویوٹا کے اشتراک سے کام کر رہا تھا۔ یہ سب بھی ضبط کر لیا گیا۔ انہیں اس زمانے میں ساڑھے تین سو ملین کا نقصان ہوا اور دنیا نے دیکھا بٹالہ انجینئرنگ کے مالک نے دکھ اور غم میں شاعری شروع کر دی۔ رنگون والا، ہارون، جعفر سنز، سہگل پاکستان چھوڑ گئے۔ کچھ نے ہمت کی اور ملک میں ہی رہے کیسے دادا گروپ، آدم جی، گل احمد اور فتح لیکن ان کا اعتماد یوں مجروح ہوا کہ پھر کسی نے انڈسٹریلائزیشن کو سنجیدہ نہیں لیا۔ جو ملک چھوڑ گئے ان میں سے کچھ اس وقت واپس آ گئے جب بھٹو کا اقتدار ختم ہوا لیکن وہ پھر انڈسٹری لگانے کی ہمت نہ کر سکے۔ احمد ابراہیم کی جعفر برادرز اس زمانے میں مقامی طور پر کار بنانے کے قریب تھی۔ ہم آج تک کار تیار نہیں کر سکے۔ فینسی گروپ اکتالیس صنعتیں تباہ کروا کے یوں ڈرا کہ اگلے چالیس سالوں میں اس نے صرف ایک فیکٹری لگائی، وہ بھی بسکٹ کی۔ ہارون گروپ کی پچیس صنعتیں تھیں، وہ اپنا کاروبار لے کر امریکہ چلے گئے۔ آج پاکستان میں ان کے صرف دو یونٹ کام کر رہے ہیں۔ کاروباری خاندان ملک چھوڑ گئے یا پاکستان میں سرمایہ کاری سے تائب ہو گئے۔ ادھر بھٹو نے صنعتیں قبضے میں تو لے لیں لیکن چلا نہ سکے۔ ان اداروں میں سیاسی کارکنوں کی فوج بھرتی کر دی گئی۔ مزدور اب سرکار کے ملازم تھے، کام کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ نتیجہ یہ نکلا ایک ہی سال میں قومیائی گئی صنعت کا 80 فیصد برباد ہو گیا۔ زرعی گروتھ کی شرح میں تین گنا کمی واقع ہوئی۔ نوبت قرضوں تک آ گئی۔ جتنا قرض مشرقی اور مغربی یعنی متحدہ پاکستان نے اپنی پوری تاریخ میں لیا تھا اس سے زیادہ قرض بھٹو حکومت نے چند سالوں میں لے لیا۔ خطے میں سب سے زیادہ افراط زر پاکستان میں تھا۔ ادائیگیوں کے خسارے میں 795 فیصد اضافہ ہو گیا۔ سٹیٹ بنک ہر سال ایک رپورٹ پیش کرتا ہے۔ بھٹو نے چار سال سٹیٹ بنک کو یہ رپورٹ ہی پیش نہ کرنے دی تا کہ لوگوں کو علم ہی نہ ہو سکے کتنی تباہی ہو چکی۔ نیشنلائزیشن کر کے اداروں میں ان سیاسی بھرتیوں کی رسم نے آج ہمارے قومی اداروں کو اجاڑ دیا ہے اور ہم اب ان کی نجکاری کر رہے ہیں۔حالات کی ستم ظریفی دیکھیے ، بھٹوصاحب کی نیشنلائزیشن کے ہاتھوں جو معیشت تباہ ہوئی تھی ، آج عشروں بعد نجکاری کے ذریعے اسے سنبھالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ہماری معیشت کی جڑوں میں سووشلزم کا تیشہ نہ چلتا تو آج ہر شہر میں مکیش امبانی ہوتے۔ہم نے اپنے مکیش امبانی کنگال کر کے خود یہاں سے بھگائے اور ہم پڑوس کے مکیش امبانی کو گواچی گاں کی طرح دیکھ رہے ہیں کہ اتنی دولت۔