تبدیلی آگئی ،عام انتخابات اور عام انتخابات کے بعدوزیر اعظم ہاؤس اور ایوان صدر کے مکینوں کا بظاہرپانچ برسوں کے لئے فیصلہ ہو گیا ، شہبازشریف نے دوسری بارمشکل ترین وقت میں قوم کی قیادت سنبھالی ہے او ر آصف علی زرداری بھی دوسری بارصدر مملکت کے عہدے پر فائز ہوگئے اب ملکی قیادت کے سامنے مشکل ترین اہداف ہیں جس میں سب سے بڑا ہدف قرضوں کا وہ پہاڑ ہے جو سر ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اب حکومت نے کیا کرنا ہے اور کیا پالیسی اختیار کرنی ہے یہ عیاں ہے ہمارے پاس قرض چکانے کے لئے قرض لینے کے سوا دوسرا راستہ نہیں۔کہا جارہا ہے کہ ہمیں مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ایسے مشکل فیصلے جن کا بوجھ صرف عوام کو اٹھانا ہوگا ، اشرافیہ کے شاہ خرچیوں پر کوئی فرق نہیں پڑنا عوام کو یہ بھی قبول ہے لیکن کوئی ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر دو کروڑ روپے کی گاڑی میں بیٹھ کر دو پولیس گاڑیوں کے پروٹوکول کے ساتھ آلو پیاز کی قیمت چیک کرنے تو نکلے ؟ ایک بین الاقومی ن نشریاتی ادارے کے مطابق عشروں سے ’’ڈیٹ ٹریپ‘‘ یعنی قرضوں کے چنگل میں پھنسے پاکستان پر حالیہ برسوں میں قرضوں میں اضافہ اور سمٹتی معیشت کی وجہ سے انکی اورسود کی ادائیگی بڑا مسئلہ بن چکا ہے، امریکی کے ادارے بلوم برگ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے اندرونی و بیرونی قرضے ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں قرضوں پر سود کی ادائیگی کی شرح جی ڈی پی کے لحاظ سے بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور اب ان کی ادائیگی ناقابل برداشت ہو رہی ہے۔ 31 دسمبر 2022 کو ملک پر مجموعی قرضہ 51058 ارب روپے تک تھا جو ایک سال میں 65189 ارب روپے ہو گیا، ایک سال میں قرض میں ہونے والا یہ اضافہ 27.7 فیصد تھا۔پاکستان پر لدے اس مجموعی قرضے میں اندرون ملک بینکوں اور مالیاتی اداروں سے لیا جانے والا قرضہ 42588 ارب روپے ہے جب کہ بیرونی ملک عالمی اداروں اور ممالک سے لیے جانے والا قرض 22601 ارب روپے ہے ،پاکستان کے ذمے واجب الادہ مجموعی قرض کا اگر ڈالر میں حساب لگایا جائے تو یہ 131 ارب ڈالر بنتا ہے۔پاکستان کو 30 جون 2024 تک مالی سال کے اختتام تک دس ارب ڈالر کا قرضہ واپس کرنا ہے۔عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ نے کہا ہے کہ پاکستان نے موجودہ مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں 18 ارب ڈالر کے قرض واپس کرنے تھے جس میں آدھے بھی ادا نہیں کئے گئے اسٹیٹ بینک نے 31 دسمبر 2023 تک ملک پر قرضے کی جو تفصیلات جاری کی ہیں ان کے مطابق پاکستان پر مجموعی طور پر 65189 ارب روپے کا اندرونی و بیرونی قرضہ ہے جس میں صرف ایک سال کے دوران 14000 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ اس خوفناک صورتحال سے اسی صورت میں نمٹنے کے لئے لازمی ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو سیاست دان اس معاملے کو قومی مسئلہ قرار دے کرکم از کم اس پر سیاست نہ کریں ۔ اگر کسی گھر میں چار بھائی برسرروزگار ہوں تو قرض وصولنے والوں کو بھی امید ہوتی ہے کہ ان کی رقم جیسے تیسے کرکے مل جائے گی لیکن اگر ان چاروں کی آپس میں نہ بنتی ہو وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہ ہوں تو پھر سودخور کو عدالت سے ڈگری ہی لینی پڑتی ہے ۔کڑوا سچ یہی ہے کہ ہمارا حال اسی گھر کا ہے جہاں کسی کے لئے برداشت نہیں ۔ انکار نہیں کہ انتخابات اور الزامات کا چولی دامن کا ساتھ ہے کبھی عمران خان پینتیس پنکچر کا نعرہ لگا کر اسلام آباد پر چڑھ دوڑے تو کبھی مسلم لیگ نون نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کانعرہ لگا کر آستینیں چڑھائیں ، گذشتہ دنوں ہونے والے الیکشن کے آغاز ہی میں پیپلز پارٹی نے ’’لاڈلے ‘‘ کی پھبتی دے ماری تھی لیکن موجودہ صورتحال میں سب سے خوفناک بات ’’بے قیادت‘‘ پی ٹی آئی کی انتخابات اور حساس معاملات پر’’ گولہ باری ‘‘ہے ،کوئی دن جاتا نہیں کہ ایک نیا الزام سامنے نہ آتاہو، تحریک انصاف کے لیڈر بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں، حیران کن امرتو آئی ایم ایف کو لکھا گیا خط ہے یہ دراصل سال بھر پہلے لیک ہونے والی آڈیو کال میں شوکت ترین کا تیمور جھگڑا اور محسن لغاری کو دیئے گئے بھیانک مشورے پر عمل درآمد ہے یہ آڈیو لیک سوشل میڈیا پر موجود ہے سنا جاسکتا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو کیا لکھنے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔یقین نہیں آتا کہ جس شاخ پر آشیانہ ہواسے کاٹنے کی حماقت کو ن کرسکتا ہے، کوئی ان ہمدردان وطن سے پوچھے کہ آئی ایم ایف کے پاس تو آپکی حکومت بھی گئی تھی کیا اس وقت ڈکشنری میں لفظ قرض کہیں موجود نہیں تھا کیا عمران خان کی حکومت نے ملکی تاریخ میں قرض لینے کے ریکارڈ قائم نہیں کئے وہ درست اور وقت کی ضرورت تھے تو اب یہاں کون سا پاکستانی ڈالر اڑاتا پھرتا اور سونا اچھالتا ملتا ہے راوی کہاں چین چین لکھ رہاہے ؟ پی ٹی آئی میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ قیادت کے اختلاف کا ہے شیر افضل مروت نے کل اپنے قتل کی سازش کی در فنطنی چھوڑ دی ،وہ پہلے واضح الفاط میںشعیب شاہین کو ایجنٹ قرار دے چکے ہیں اس وقت پارٹی کی قیادت کسی سینئر سیاست دان کے بجائے سینئر وکلا ء کی نومولود قیادت کے پاس ہونے سے معاملات بگڑ تے جارہے ہیں ، اس نومولود قیادت کی وکالت میں کارکردگی شاندار رہی ہوگی لیکن افسوس کہ سیاست دان بننے کے بعد وہ عمران خان کی وکالت کا حق بھی ادا نہیں کرسکے علیمہ خان نے عمران خان کو سزا سنائے جانے کے بعد اپنے بھائی کی جماعت کی وکلاء قیادت کو کٹہرے میں کھڑا کردیا تھا کہ وہ خان صاحب کو دی گئی سزا کا جواب دیں لیکن میری تشویش تو پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے ہے کمزور معیشت سے مضبوط دفاع ناممکن ہے کاش اس خوفناک صورت حال میں کوئی ذی فہم کھڑا ہو اورصورتحال کی سنگینی کا احساس دلائے کہ اس شاخ کو کلہاڑے سے دور رکھیں جس پر ہم سب کا آشیانہ ہے ۔