وزیر اعظم شہباز شریف نے کابینہ کے پہلے اجلاس میں رمضان المبارک کے دوران عوام کو بجلی اور گیس کی بلا تعطل فراہمی کی ہدایت کی ہے۔وفاقی کابینہ نے کیلے اور پیاز کی برآمد پر پابندی کا فیصلہ کیا۔وزیر اعظم نے ایل پی جی شعبے کی کڑی نگرانی کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ۔وزیر اعظم شہباز شریف نے نئی حلف اٹھانے والی کابینہ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کے دوران ملکی مسائل کی ایک گھمبیر تصویر کھینچی ہے۔ انہوں نے اپریل 2022 میں وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جو تقریر کی تھی اس بار بھی اس سے ملتا جلتا جذبہ تھا۔ تاہم اس بار انہوں نے ملک کے لئے سیاست قربان کرنے کی بات نہیں کی ۔ انہوں نے ملک کی معاشی پریشانیوں کو پی ٹی آئی سے منسوب کرنے سے گریز کیا۔اپنی اجتماعی یادداشت پر غور کرتے ہوئے، ہم ان بے شمار واقعات کو یاد کر سکتے ہیں جہاں نئے حلف اٹھانے والے رہنما، خواہ وہ وزرائے اعظم ہوں، فوجی آمر ہوں، یا ٹیکنوکریٹس، قوم کے سنگین معاشی اور مالی حالات سے نمٹنے کا وعدہ کرتے ہوئے ایسی ہی تقریریں کر چکے ہیں۔ وہ ملک کی ترقی کے لیے اپنی کوششوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑنے کا عہد کرتے ہیں۔ تاہم، تاریخ گواہ ہے کہ یہ وعدے اقتدار اور استحقاق کے جال میں ڈوبتے ہی بتاشے کی طرح تیزی سے تحلیل ہو جاتے ہیں۔اپنے خطاب میں شہباز شریف نے قومی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے "محنت" کی طاقت پر اپنے پختہ یقین کا اعادہ کیا۔ تاہم انہوں نے اختراعی اور تخلیقی حل کے لیے اپنی تنہا محنت کی حدود کو بھی تسلیم کیا۔ انہوں نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کی اہمیت پر زور دیا اور سب سے بڑھ کر ملک کو درپیش بنیادی نظام جاتی مسائل کو حل کرنے پر زور دیا۔ وزیر اعظم کی طرف سے نمایاں کردہ چیلنجوں کے علاوہ نئی حکومت کے سامنے کئی دیگر اہم مسائل ہیں، جو ملک کو استحکام اور ترقی کی طرف لے جانے سے روک رہے ہیں۔پاکستان کی معیشت کی موجودہ حالت تشویشناک ہے، کئی اہم شعبوں کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ بجلی کا گردشی قرضہ چار ہزار ارب روپت کی خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے جبکہ قومی کیریئر پی آئی اے کو آٹھ سو ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو رہا ہے۔ بجلی کے پلانٹس کی حالت ابتر ہو چکی ہے، جس سے مالی نقصانات ہو رہے ہیں۔ بجلی کی بے تحاشا چوری کے نتیجے میں چار سو ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ یہ نقصان توانائی کے شعبے پر مالی دباؤ کو بڑھا رہا ہے۔مالی پریشانیوں میں اضافہ کرتے ہوئے، ایف بی آر جیسے سرکاری اداروں میں بدعنوانی کے نتیجے میں تین سو ارب روپے سے زائد کا خسارہ ہوا ہے۔ پی آئی اے، سٹیل ملز اور ایسے دوسرے اداروں کو چلانے کے لئے مشکلات کا سامنا ہے، نقصان پانچ سو ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ مالی بدانتظامی کے نتائج سنگین ہیں جوآبادی کی اکثریت کو متاثر کر رہے ہیں۔ اگرچہ اشرافیہ نامی آبادی کا ایک چھوٹا حصہ ان نقصانات سے فائدہ اٹھاتا ہے، لیکن یہ بوجھ بقیہ 90% پر بہت زیادہ پڑتا ہے، جس کی وجہ سے ٹیکس، یوٹیلیٹی چارجز اور اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ نتیجتاً، مالی طور پر کمزور افرادکو معیار زندگی میں گراوٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، سکولوں کی بڑھتی ہوئی فیسوں، نقل و حمل کے اخراجات اور رہائش کے اخراجات جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، جو انہیں غربت کی دلدل میں مزید دھکیل رہے ہیں۔ نئی منتخب حکومت کا کام ان چیلنجوں کو کم کرنا ہے ۔حکومت غیر ملکی سرمایہ کاری کو بڑھانا چاہتی ہے ۔ غیر ملکی سرمایہ کاری 2023 میں محض 2.7 بلین ڈالر تکرہی۔ ملک بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں کے بوجھ سے دوچار ہے، جو 2023 تک تقریباً 126.3 بلین ڈالر تک بڑھ چکے ہیں۔ پاکستان پر قرض 2022 سے 2024 تک اس کی جی ڈی پی کے 7.6% اور 7.8% کے درمیان گھوم رہا ہے۔یہ پریشانیوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی نچلی سطح پر آ چکے ہیں، جو تقریباً 8 بلین ڈالر ہیں، اس قلیل زرمبادلہ سے حکومت کے معاشی معاملات کو مؤثر طریقے سے چلانے کی صلاحیت پر شدید رکاوٹیں ہیں۔ یہ مشکل چیلنجز معیشت کو مستحکم کرنے اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے لیے فیصلہ کن اورسٹریٹجک اقدام کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ان چیلنجوں پر قابو پانا بلاشبہ مشکل ہے لیکن ناقابل تسخیر نہیں۔ متعدد اقوام شدید اقتصادی اور مالی مشکلات سے دوچار ہیں،وہ اپنے بنیادی مسائل کو کامیابی کے ساتھ حل کر چکی ہیں۔پاکستان کے مسائل بر وقت حل نہ ہونے کی وجہ سے سنگین ہو چکے ہیں۔اب حالت یہ ہے کہ ایک مسئلہ کا سر ڈھانپا جائے تو چادر سے دوسرے کے پاوں باہر نکل جاتے ہیں۔ ملک ہمہ گیر بحرانوں کا شکار ہے جن سے نکلنے کے لئے معمول کی صلاحیت اور استعداد سے کام نہیں چل سکتا۔وزیر اعظم یقینا اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں لیکن ابھی تک ان کی جانب سے ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے، ٹکراو کی سیاست ختم کرنے،معاشی بحالی کے قابل عمل منصوبے، عوام کا نظام پر اعتبار بحال کرنے ،پولیس اور دوسرے اداروں میں اصلاحات کے متعلق کوئی منصوبہ سامنے نہیں آسکا۔نئی حکومت کے ابتدائی ایام اس کی سمت کا تعین کر دیتے ہیں۔امید کی جاتی ہے کہ عام آدمی کو مہنگائی کی چکی سے نکالنے کے ساتھ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ قومی مسائل کو حل کرنے کے لئے اپنی بھرپور صلاحیت بروئے کار لائیں گے۔