یہ مارچ 2011ء کی بات ہے بھارت میں ایک ایسی کتاب پر شوراٹھ رہا تھا جو ابھی وہاں پہنچی بھی نہ تھی لیکن اس کا ذکر ہر جگہ تھا، بھارتی ریاست گجرات اسمبلی میں تو اس کتاب کے خلاف بھارتیوں کی زبان میں ’’مدعا‘‘ اٹھا لیا گیا دھواں دھار تقاریر ہوئیں ، اسمبلی فلور پر متعصب ہندونیتاؤں کے منہ سے کف بہہ رہی تھی سب یک زبان ہو کر کہہ رہے تھے کہ یہ کتاب یہاں نظر نہیں آنی چاہئے اور پھر ایسا ہی ہوا کتاب کے خلاف قرارداد پاس ہوئی اور Great Soul: Mahatma Gandhi and His Struggle with India(عظیم روح، مہاتما گاندھی اور بھارت کے لئے انکی جدوجہد) نامی کتاب پرپابندی لگا دی گئی ،اب یہ کتاب بھارت میں موجود نہیں۔ گاندھی جی پر یہ کتاب کسی عام شخص کی نہیں امریکہ کے جانے مانے پولٹرز ایوارڈ یافتہ مصنف اور معروف صحافی جوزف لیلیویلڈ کی ہے جو نیویارک ٹائمز سے چالیس برس جڑے رہے ، آخر اس کتاب میں ایسا کیا تھا کہ ہندوستان میں اتنا شور مچا اور ایسا ردعمل آیا؟ دراصل اس کتاب میں گاندھی جی کی زندگی کے ان پوشیدہ شرمناک گوشوں میں جھانکا گیا تھا جو عام طور پر دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ ؓبات یہیںختم نہیں ہوتی اس سے اگلے برس لندن کے ایک نیلام گھر میں گاندھی صاحب کے خطوط تصاویراور دستاویزات کی نیلامی کا اعلان کیا گیا، یہ خطوط نہایت نجی نوعیت کے تھے جن میں گاندھی کی نجی زندگی کا شرمناک اور پوشیدہ گوشہ بے نقاب ہو رہا تھا ، یہ پیار بھری چٹھیاں اپنے باڈی بلڈر اوریہودی دوست ہرمین کولن باخ Hermann Kallenbach کو لکھی گئی تھیں ،کولن باخ پیشے کے اعتبار سے ایک ماہر تعمیرات اورباڈی بلڈنگ کا شوقین تھا۔اسکی گاندھی سے ملاقات سن 1904 میں جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں ہوئی تھی اور پھریہ ملاقات،ملاقاتوں میں اور بہت جلد ہی گہری دوستی میں تبدیل ہو گئی سن 1905 اور 1945ء کے درمیان گاندھی نے کالن باخ کے ساتھ یادگار وقت گزارا اورانہی یادگار لمحات کا ذکر اپنے دوست سے خطوط میں کیا ۔ نیلامی کے لئے پیش کئے جانے والے اس مجموعے میں دونوں دوستوں کی تصاویر اور دیگر دستاویزات بھی تھیںیہ خطوط،دستاویزات او رتصاویر بھارتی مورخ رام چندر گوہا نے کالن باخ کی ایک رشتہ دار کے گھر سے حاصل کئے تھے۔ اس میں گاندھی کے رشتہ داروں، دوست احباب اور خود ذاتی طور پر گاندھی کی جانب سے کیلن باخ کو لکھے گئے تیرہ خطوط بھی شامل تھے۔ ان خطوط اور دستاویزات سے معلوم ہوتا تھا کہ کالن باخ اور گاندھی جی کا رشتہ صرف دوستی کا نہ تھا بلکہ بہت آگے کا تھادونوں دوست ہم جنس پرست تھے دس مئی2012 منگل کے روز لندن کے مشہور نیلام گھر سوتھبز (Sotheby's) میں ان عاشقانہ چھٹیوں، تصاویر اوردستاویزات کی نیلامی متوقع تھی ، سب کی نظریں لگی ہوئی تھیں کہ ان دستاویزات کا خریدار کون ہوتا ہے لیکن اس سے پہلے کہ گاندھی جی کی عزت کی نیلامی ہوتی بھارتی حکومت نے سارے خطوط دستاویزات اور تصاویرمنہ مانگے داموںخرید کرگاندھی جی کی پوشیدہ زندگی پر پردہ پڑے رہنے دیا اور اپنے بھارت کی عزت بھی بچا لی اندازہ لگایا جارہا تھا کہ یہ ’’نادرمجموعہ ‘‘ پانچ سے سات لاکھ برطانوی پاؤنڈز کے درمیان فروخت ہوگا ۔ ظاہر ہے اس سے کم کیا دام لگے ہوں گے جتنے بھی لگے بھارت نے ادا کئے کہ معاملہ ان کے قومی وقار اور ملک کی عزت کا آگیا تھا بھارت نے خود کو جگ ہنسائی اور بھارتیوں کو دنیاکی طنزیہ نظروں کے نشتر وں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بچالیا۔ مرے سامنے لاہور کے جناح ہاؤس سے اٹھتا سیاہ دھواں ہے جو چھٹنے کا نام نہیں لیتا چھٹ بھی جائے تو جناح ہاؤ س سے کے درودیوار سے لپٹی سیاہی ہمارا مقدر کا حصہ ہوچکی ہے، مال روڈ لاہور پرواقع یہ عمارت محض سیمنٹ او ر پتھرکی نہیںتھی اس کے درودیوار نے قائد اعظم کالمس محسوس کررکھا ہے یہ میرے قائد سے منسوب ہے۔ احتجاجیوں نے حملہ کر کے بائیس کروڑ پاکستانیوں کے سرشرم سے جھکا دیئے یہ حملہ لوٹ مار، سرحد پار سے کسی دشمن نے نہیں اپنوں نے کی کارستانی تھی اور لاہوریوں سے’’زندہ دلان لاہور ‘‘کی خوبصورت شناخت چھن گئی ، پی ٹی آئی کی ایک پروقار سنجیدہ ومتین سمجھی جانے والی بزرگ رہنما کاوڈیو کلپ سنابار بار سنا اور دیکھا، مظاہرین کورکمانڈر ہاؤس جا نے کا کہتے ہیں اور یہ بزرگ خاتون انہیں روک نہیں رہیں۔ اور پھر یہ مشتعل ہجوم اکھٹے ہو کر جناح ہاؤس میں گھس جاتا ہے ۔عقل و خرد سے پیدل ہجوم اندر داخل ہوا ور سب کچھ توڑتا پھوڑتا لوٹتا چلا گیا، ان ظالموں سے جناح ہاؤس کی مسجد بچی نہ باورچی خانہ جس کے ہاتھ جو لگا لے کر چلتا بنا اور صرف ایک جناح ہاؤس ہی کیا ۔مشتعل احتجاجیوںنے چن چن کر قومی یادگاروں کو بھی نشانہ بنایا ۔ پی اے ایف بیس میانوالی، جی پی او، ریڈیو پاکستان پشاور سمیت درجنوں عمارتوں کو جلایاگیا ،کہتے ہیں قائداعظم نے یہ بنگلہ موہن لال نامی تاجر سے جولائی 1943 میں ایک لاکھ 62 ہزار 500 روپے میں خریدا تھا، قائد اعظم نے بمبئی میں واقع اپنا لٹلز گبز والا بنگلہ اور مے فیئر فلیٹ 1943 میں فروخت کر کے کراچی اور لاہور والے جناح ہاؤس خریدے تھے، انہیں علم تھا کہ پاکستان بننے والا ہے اور انہیں کراچی اور لاہور میں رہائش گاہوں کی ضرورت ہو گی ۔کاش کوئی تو ماتم کناں ملتا کہ لاہور کا فرض کفایہ ہی ادا ہوتا!! ٭٭٭٭٭