فرصت کے لمحات میں یوٹیوب پر ریڈیو پر نشر پرانے لوک گیت تلاش کرتا ہوں۔ ریڈیو پاکستان نے آواز خزانہ کے نام سے بہت سے ریکارڈ یوٹیوب پر ڈال رکھے ہیں۔کئی آوازوں کو پہچانتا ہوں لیکن گلوکار کا نام یاد نہیں ہوتا۔ گانے کے بول ٹائپ کر کے تلاش کرتا ہوں۔ اس کا ایک فائدہ ہوتا ہے۔ ملتے جلتے بول والے کئی مشہور فلمی نغمے سامنے آنے لگتے ہیں۔ پھر ایک ہی نغمہ بعض اوقات نئے پرانے کوئی دس بارہ گلوکاروں نے گایا ہوتا ہے۔ میں سب کو سنتا ہوں۔ ان کی گائیکی میں فرق تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ موسیقی کے متعلق اصطلاحاتی علم نہیں اس لیے یہ فرق فنی انداز میں واضح کرنے کی بجائے میں بعض اوقات اپنے پیمانے استعمال کرتا ہوں مثلاً ایک بہت سریلی گلوکارہ ہیں‘ گلشن جہاں انہوں نے ایک فلمی گانا ماہی ہسیا بہاراں کھل پئیاں ایسا گایا کہ کئی مقامات پر لگا کہ وہ نور جہاں سے بہتر گا رہی ہیں۔ ایک گلوکارہ ہیں‘ مہوش حسن ملک۔ آواز کی طرح چہرہ مہرہ کلاسک پنجابی ہے۔ پی ٹی وی کے پروگرام ورثہ میں آئیں۔ انہوں نے ایک گیت گایا ’’مینو چڑھیا روپ دا زہر ،پیار دی بین سنا جاوے،نی اج کوئی جوگی آوے۔ یہ لوک موسیقی کے سازانتظام کے ساتھ گایا خوبصورت گیت ہے۔ یہی گیت بھارتی گلوکارہ رچا شرما نے فلمی قوالی کے انداز میں گایا۔ اس گیت کو قوالوں نے بالکل اور طرح گایا اور سماع کی محفلوں کا پسندیدہ بنا دیا۔ ٹینا ثانی کو عام طور پر کلام فیض کی گائیکی کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ میرے لیے ٹینا ثانی کی شناخت ان کا گیت ’’اکھاں چھم چھم وسیاں‘‘ ہے۔ کسی کونے میں بیٹھ جائیں‘ روشنی کا شور تک نہ ہو۔ سنیں‘ دیکھتے ہیں آنکھ آپ کے قابو میں رہتی ہے یا بے قابو ہو کر پانی میں ڈوب جاتی ہے۔ زندگی اپنے طریقے سے تعلیم دیتی ہے۔ ایک وقت تھا‘ اقبال باہو کی آواز میں ریکارڈ میاں محمد بخش اور سلطان باہوکا کلام بہت سنا۔ یہ سنا ہوا کلام میری شخصیت کا شائد حصہ بن گیا۔ آج بھی کہیں سنائی دے تو لگتا ہے‘ میری ذات کا کوئی الگ ہوا جزیرہ مجھے اپنی جانب بلا رہا ہے۔ ’’مائیں نی میں کنوں آکھاں‘ درد وچھوڑے دا حال نی‘‘ شاہ حسین نے پانچ سو سال پہلے پنجابی میں یہ کافی لکھی لیکن بلاشبہ حامد علی بیلا نے اسے یوں گایا کہ شاہ حسین جس درد کو اس میں سنبھال کر رکھنا چاہتے تھے وہ ہماری نسلوں تک پہنچا اور اگلی نسلیں بھی اس سے آشنا ہوتی رہیں گی۔ ایک گیت بڑی تگ و دو کے بعد ملا۔ گلوکار محمد یونس تھے‘ ’’اللہ ہو دا آوازہ آوے‘ کلی فقیر دے وچوں‘‘ سکول سے پہلے کی عمر سے سن رہا ہوں۔ یہ تصوف کا ایک سریلا رنگ ہے۔ نصیحت ہے۔ انتباہ ہے۔ معلوم نہیں اس گلوکار کا کوئی دوسرا گیت کیوں نہیں موجود۔پھر افشاں کا گیت ،اڈدا پھردا ،نی اڈدا پھردا آل دوالے،پجیا پجیا بور نی۔ ایک اور گیت حافظے میں چمک رہا ہے: گندلاں توڑ دئیے مٹیارے نی ذرا مکھ نو ایدھر موڑ۔ پنجاب کے لوک گیتوں میں پہاڑی سُر،صحرائی کوک،میدانوں کی ہریاول،جنگل بیلے اور دریاوں کے گھاٹ سانس لیتے ہیں۔میرے لئے عاشق جٹ کا گایا ِمینو پار لنگھا دے وے گھڑیا منتاں تیریاں کردی، اور عالم لوہار کا ،دل والا دکھڑا نئیں کسے نو سنائی دا ، بہت اہم ہیں لیکن اگر آپ کے کانوں نے ابھی تک بھارت کی نوجوان گلوکارہ نمرت کھیرا کا گایا مرزا نہیںسنا تو پنجاب کے جنگی آہنگ والے گیت سے آپ محروم ہیں۔ پچھلے کئی برسوں سے ایک گیت تلاش کررہا تھا‘ ’’رانجھو میرے دوارے نئیں آوندا‘‘۔ یقین نہیں بس اندازہ ہے کہ اسے آصف اقبال نے گایا ہے۔ ایک استاد گھرانے کے چشم و چراغ سعادت علی خان ریڈیو پاکستان لاہور میں میوزک کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ چند سال پہلے انہیں گزارش کی تھی لیکن یہ ریکارڈ نہ مل سکا۔ یوٹیوب پر جانے کتنے سو بار اس کی تلاش کی۔ یہ گیت آخری بار شاید تیس سال پہلے سنا تھا۔ مجھے آج بھی زبانی یاد ہے۔ رانجھے کو شعروں میں بہت سے اساتذہ نے استعمال کیا۔وارث شاہ نے تو ہیر اور رانجھے کا سراپا بھی عمدگی کے ساتھ لکھا ہے۔ وارث شاہ رانجھے کو ’’چوبر‘‘ لکھتے ہیں۔ رانجھے کی باقی صفات اور نین نقش کے ساتھ ’’چوبر‘‘ ایک منفرد شخصی صفت اجاگر کرتا ہے لیکن جس گیت کی میں بات کررہا ہوں اس نے ہلکے پھلکے رنگ میں ایسا رانجھا پینٹ کیا ہے کہ میں پوری زندگی اس تصور سے کبھی نکلا ہی نہیں: رانجھو میرے دے کی اے نشانی کن وچ مندراں گل وچ گانی متھے تلک تے ونجھلی وجاوندا رانجھو میرے دوارے نئیں آوندا ہوا یہ کہ عزیز دوست کریم احمد ریڈیو پاکستان میں کرنٹ افیئرز کے پروگرام منیجر ہیں۔ ایک کالم پران سے بات ہورہی تھی تو اچانک مجھے ’’رانجھو میرے دوارے‘‘ یاد آ گیا۔ انہوں نے تلاش کرنے کا وعدہ کیا۔ لاہور ریڈیوسٹیشن کی لائبریری سے یہ گیت نہ مل سکا۔ حیرت یہ کہ کوئی اس گیت سے واقف تک نہ تھا۔ ریڈیو کتنا کھوکھلا ہو گیا ہے اس دن اندازہ ہوا۔ کریم احمد نے سنٹرل پروڈکشن لائبریری اسلام آباد سے پتہ کروایا وہاں سے گیت مل گیا لیکن نیا موڑ یہ آیا کہ آصف اقبال کی مردانہ آواز کی بجائے ثمر اقبال کی نسوانی آواز میں ملا۔ میں نے ہمیشہ مردانہ آوازمیں سنا تھا۔ ثمر اقبال کا نام سنا تو سنا سنا معلوم ہوا۔ پھر یوٹیوب پر گیا۔ ایک فلمی گانا آیا ’’ہزار بار منع کیا میری گلی نہ سیاں آنا‘‘۔ یہ ثمر اقبال کا گایا ہے۔ طفیل نیازی کے ساتھ ماہئیے ہیں۔ معلوم نہیں اور کتنے لوگ ہوں گے جو اب بھی لوک گیت سنتے ہیں،جو اپنی مٹی اور تہذیب سے الگ ہو کر نہیں رہ سکتے۔جن کے اندر رومان ناچتا اور گاتا ہے۔کریم احمد نے جب سے گیت بھیجا ہے ایک سو بار تو ضرور سن لیا ہو گا۔ لکھتے ہوئے بھی یہی گنگنا رہا ہوں۔ کچھ گیت ہمارے اندر گھر بنا لیتے ہیں اور پھر ہمیشہ چہچہاتے رہتے ہیں۔رانجھو بھی میرے اندر گونج رہا ہے۔