ترکی کی ایک کہاوت ہے! یہ کہنا کافی نہیں کہ تم میرے بھائی ہو ، یہ بتائو کونسا بھائی ؟ ہابیل یا قابیل؟ رجب طیب اردوان فروری 1954 میں ایک کوسٹ گارڈ کے گھر پیدا ہوئے۔ انھوں نے اسلامک سکول سے تعلیم حاصل کی اور استنبول کی مامارا یونیورسٹی سییی مینجمنٹ کی ڈگری حاصل کی۔ جب وہ 13 سال کے تھے، تو ان کے والد نے استنبول منتقل ہونے کا فیصلہ کیا تاکہ ان کے بچوں کو بہتر ماحول میسر آ سکے۔رجب طیب اردوان کے چار بچے ہیں۔ وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ کسی بھی مسلمان فیملی کو خاندانی منصوبہ بندی کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ انھوں نے مئی 2016 میں کہا تھا کہ ہم اپنی نسلیں بڑھائیں گے۔جوانی میںرجب طیب اردوان نے بڑی محنت کی ،پیسے کمانے کے لیے جوس اور ڈبل روٹی تک بیچی۔طیب اردوان ملکی سطح پر اقتدار میں 2003ء سے موجود ہیں۔ وہ 11 سال ملک کے وزیراعظم رہے اور اس کے بعد اگست 2014 ء میں وہ ملک کے پہلے براہِ راست منتخب ہونے والے صدر بنے۔ان کی جانب سے اپنے ناقدین پر دباؤ ڈالنے کی وجہ سے مغربی ممالک کافی پریشان رہے اور یورپی یونین کے ترکی کے ساتھ تعلقات بھی سرد مہری کا شکار رہے۔ 600 سال تک سلطنت عثمانیہ جنوب مشرقی یورپ سے لے کر موجودہ آسٹریا، ہنگری، بلقان، یونان، یوکرین، عراق، شام، اسرائیل، فلسطین اور مصر تک پھیلی ہوئی تھی۔ 16ویں اور 17ویں صدی کے درمیان اس سلطنت کی طاقت میں مزید اضافہ ہوا۔عروج سے زوال تک ایک تاریخ جسے ایک ڈارمے میں فلمایا گیا ۔ 2002 ء سے ترکی میں برسراقتدار رجب طیب اردوان اس سنہرے دور کی واپسی کیلئے پر جوش ہیں۔آج ترک قوم فیصلہ کریگی کہ آیا وہ اپنے ماضی سے ملنا چاہتے ہیں یا پھر گزشتہ سو برس کی طرح غلامی کا طوق گلے میں ڈالے رکھیں گے ۔ انتخابات کے پہلے مرحلے میں اگر کوئی ایک فریق 50فیصد ووٹ نہ لے سکا ،تو دوبارہ پنجہ آزمائی ہو گی تاوقتیکہ50فیصد ووٹ کا ہندسہ عبور کر لیا جائے ۔ ترکی کی سرحد آٹھ ممالک سے ملتی ہے۔ یہاں 74 فیصد سنی مسلمان ہیں جبکہ باقی آبادی میں سبھی مذاہب شامل ہیں۔کل آبادی تقریباً ساڑھے آٹھ کروڑ ہے گویا ہمارے صوبہ پنجاب سے بھی کم ۔ اگر آج اردوان جیت جاتے ہیں تو پھر سیکولر ازم کے بت پاش پاش ۔ورنہ طویل جدجہد ۔ازسر نو صف بندی ۔مالی اور جانی قربانیاں ۔امتحانات کے مشکل مراحل۔رجب طیب اردوان نے 20برس میں اسلام کو نمایاں کیا ۔جس کے باعث معاشرے اور سیاست پر اسلام کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ابتدا میں اسلام پسندوں اور سیکولر افراد کے درمیان مصالحت پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن اسی کے ساتھ ہی ایک مضبوط مذہب پسند خودمختار حکومت کی بھی بنیاد رکھی۔ جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کے بعد وہ ایسے رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں، جس نے ترکی کی تشکیل نو کسی بھی دوسرے ترک رہنما کے مقابلے میں سب سے زیادہ کی ہے۔مگر اسکے باوجود طیب اردوان کا مقابلہ مہنگائی سے بھی ہے ،2003ء میں جب طیب اردوان برسراقتدار آئے تو ایک امریکی ڈالرکے مقابلے میں لیرا کا ریٹ 1.6 تھا، یعنی لگ بھگ ڈیڑھ ترکش لیرے کے عوض ایک امریکی ڈالر۔ مگر آج صورتحال یہ ہے کہ لگ بھگ20 ترکش لیروں کے عوض ایک امریکی ڈالر ملتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ بچے جو آج سے بیس برس قبل پیداہوئے تھے ،وہ بھی ووٹ ڈالنے میدان میں ہیں ۔ان کا ووٹ فیصلہ کن کردار اداے کرے گا ،20برس ایک لیڈر کو دیکھ دیکھ کر کچھ لوگ اکتا گئے ہوں گے اور کچھ خوش۔ 1990 ء کی دہائی میں اردوان خود استنبول کے میئر تھے،مگر بعد میں ان کی پارٹی کو تین اہم شہروں میں استنبول ،انقرہ اور ازمیرمیں شکست کا سامان کرنا پڑا۔جون 2018 میں رجب طیب اردوان کو دوبارہ پانچ برس حکومت کرنے کا موقع ملا۔اس دوران انھوں نے ترکی کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی ۔ عرب بہار کے وقت دشمن نے بڑی کوشش کی کہ اردوان کے خلاف بھی عوام کو سڑکوںپر لایا جائے مگر اسے ناکامی ہوئی ۔بعد ازاں فوجی بغاوت کروائی گئی مگر عوام اپنے لیڈر کے لیے فوجی ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے ۔ 2016 میں ہونے والی آخری فوجی ناکام بغاوت میں کم از کم 240 افراد ہلاک ہوئے تھے۔بغات کی ناکام کوشش کے بعد سے پچاس ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا ،جن میں فوجی، صحافی، وکلا، پولیس اہلکار، کرد سیاستدان سبھی شامل ہیں۔ فوجی بغاوت میں ساتھ دینے کے الزام میں حکام نے ڈیڑھ لاکھ سرکاری ملازمین کو نوکری سے بھی فارغ کیا تھا۔ ترک میڈیا رپورٹس کے مطابق استنبول کے انتخابی جلسے میں 17 لاکھ افراد نے شرکت کی ہے اور اس انتخابی جلسے کو صدی کا سب سے بڑا سیاسی جلسہ قرار دیا جا رہا ہے۔مگر مخالف امیدوار کے جلسے بھی بہت بڑے بڑے ہیں ۔لہذا جلسوں کو دیکھ کر کسی کی ہار یا جیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ اس وقت مایوس کوئی بھی نہیں ،جیت کے لیے دونوں رہنما پر جوش ہیں ۔لیکن یہ آج کا دن فیصلہ کرے گا کہ کون کیا ہے ؟ مختار مسعود نے آواز دوست میں لکھا ہے کہ : اہل شہادت اور اہل احسان میں فرق صرف اتناہے کہ شہید دوسروں کے لئے جان دیتا ہے اور محسن دوسروں کے لئے زندہ رہتا ہے۔ایک کا صدقہ جان ہے اور دوسرے کا تحفہ زندگی۔رجب طیب اردوان ترک قوم کا محسن ہے۔وہ ہار کر بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے گا ۔لیکن ترکوں کا جوش و خروش بتا رہا ہے کہ وہ اپنے محسن کو کبھی مایوس نہیں کریں گے ۔ ترکی کی ایک کہاوت ہے! یہ کہنا کافی نہیں کہ تم میرے بھائی ہو ، یہ بتائو کونسا بھائی ؟ ہابیل یا قابیل؟ رجب طیب اردوان اس قوم کا کون سا بھائی ہے ؟ آج پتہ چل جائے گا ۔