یہ ایک حقیقت ہے کہ مملکت خداداد پاکستان ایک نظریہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تحریک پاکستان میں بڑی بڑی قد آور شخصیات تھیں ،قائد اعظم محمد علی جناح ایک طلسماتی شخصیت کے مالک تھے وہ مسلم سیاست کا د ھارا اپنی شخصیت کے گرد گھوما سکتے تھے لیکن انھوں نے اس کا مرکز ومحور دوقومی نظریہ کو ہی رکھااور عوام میں ''پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ'' کے سلوگن کو متعارف کرایا اور وقت نے ثابت کیا کہ اس سلوگن میں اتنی طاقت تھی کہ اس نے توحید پرستوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور یہ کوئی محض جذباتی لوگوں کا جم غفیر نہ تھا بلکہ ایک نظریاتی اساس پر متحد ہونے والے منظم عوام تھے جنہوں نے اپنے اہداف کے حصول کیلئے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی گریز نہ کیا اپنے گھر با ر کاروبارچھوڑے ،آبائو اجداد کے مسکن کو خیر باد کہا ، وطن کی آزادی کے درخت کو اپنے خون سے سینچنا، تاریخ کے اوراق ان کی قربانیوں کے واقعات سے بھرے پڑے ہیں جو شایدآج کے دور میں قصہ و کہانیاں معلوم ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے قیام پاکستان کے بعدنظریاتی سیاست پروان نہ چڑھ سکی ۔قائد اعظم کی رحلت، قائد ملت کی شہادت، سیاست دانوں میں اقتدار کی جنگ کے دوران ملک کی نظریاتی اساس پر رقیق حملے کئے گئے اور ایسے ایسے مسائل کو بحث کا موضوع بنایا گیا جن کا دراصل حقائق سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا، بتائیے ''کیا قائد اعظم ایک سیکولر پاکستان کے حامی تھے یا اسلامی'' اس موضوع پر بھلا بحث کا کوئی جواز بنتا تھا؟ایسے موضوعات پر بحث چھڑ جا نے سے آئین کی تیاری میں غیر ضروری تاخیر ہوئی جس کی وجہ سے ایک خلاء نے جنم لیا ،1956ء میں ملک کا پہلا آئین تیار کرلیا گیا لیکن اس کی کوئی نظریاتی سمت متعین نہیں کی گئی جس کی وجہ سے ایوان اقتدار میں روز ایک نئے بحران نے جنم لیا انتشار کی سیاست نے ملک میں پہلے مارشل لاء کے نفاذ کی راہ ہموار کی ، اقتدار اور اختیار کے نشہ میں دھت صدر پاکستان سکندر مرزانے سیاست دانوں اور ارکان اسمبلی کو اپنی باندی بنا نے کی کوشش کی ان کے و ہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ آئندہ چند روز میں ا ن کے ساتھ کیا ہونے والا ہے وہ ایک غیر مقبول صدر تھے۔ انہیں ایک حادثہ کے نتیجہ میں پہلے گورنر جنرل اور پھر صدر بنایا گیا تھا،سیاست دانوں اور ارکان اسمبلی نے انہیں اقتدار کے ایوان تک پہنچایا اور ملک کے پہلے آئین میں پہلی ترمیم کرکے انہیں با اختیار سربراہ مملکت بنایا تاہم صدر مملکت کا حلف اٹھانے کے بعد سکندر مرزا کا اپنے ہی دوستوں کے ساتھ سلوک ایک سوالیہ نشان تھا پھر وہ وقت آیا جب صرف چند گھنٹوں میں انہیں ملک بدر کردیا گیا اور ملک کے طول وعرض سے سکندر مرزا کیلئے کوئی ایک آواز بھی بلند نہ ہوئی۔ جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں پاکستان ایک نظریاتی مملکت کا باب تقریبا دفن ہو گیا تھا کیونکہ 1962ء کا آئین صدارتی تھا جس میں تمام تر اختیارات کا منبع و محور ایک شخصیت تھی۔ جمہور اور جمہوریت کا نام ضرور استعمال کیا گیا لیکن عملا یہ آئین ایک شخصیت گرد گھوم رہا تھا یہ وہ دور تھا جب مملکت خداداد کی نظریاتی سیاست نے اپنا ''ٹرینڈ''تبدیل کرنا شروع کردیا اس ''ٹرینڈ'' کے فروغ کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو جیسی شخصیات نے جنم لیا اور انہیں عوام نے بھی پورا موقع فراہم کیا نظریاتی سیاست کے خاتمہ بعد خلاء اپنی جگہ موجود تھا۔ اس خلا ء کا بھر پور فائدہ ان دونوں شخصیات نے اٹھایا اس دور میں بھی کچھ محب وطن پاکستانیوں نے نظریاتی سیاست کو آگے بڑھانے کی کوشش کی لیکن انہیں عوام میں کوئی خاطر خواہ پزیرائی نہ مل سکی ۔مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اس دور میں بھی نظریاتی سیاست علمبردار تھے لیکن انہیں اور ان کی جماعت کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی تاہم وہ اور ان کی جماعت عوام کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلاتے رہے اور آج تک ان کے جانشین اور جماعت اسلامی عوام کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلانے میں مصروف ہیں۔ 1970ء میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجہ میں ان دونوں شخصیات کا جادو عوام میں سرچڑھ کر بولا ایک نے ملک مشرقی اور دوسرے نے مغربی حصہ میں کلین سویپ کیا کیونکہ 1970ء میں ہونے والے انتخابات کسی نظریہ کی بنیاد نہیں لڑے جارہے تھے بلکہ شخصیات کی بنیاد پر لڑے جارہے تھے 1945,56ء میں ایک نظریہ کی بنیاد برصغیر کے مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے امیدواروں کو ووٹ دئیے تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کو سب سے زیادہ ووٹ مشرقی بنگال سے ملے حالانکہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ محمد علی جناح کا تعلق کراچی سے تھا کیونکہ اس وقت آل انڈیا مسلم لیگ ایک نظریہ کی بنیاد پر انتخاب میں حصہ لے رہی تھی ، 1970ء کے انتخابات میں جن بوتل سے باہر آگیا جس کو سنبھالنا مشکل ہوگیا اور ملک دولخت ہو گیا جس کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں ممالک میں شخصیات کی سیاست پروان چڑ ھی اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ ہمیں یہ بات ماننا ہو گی ملک موجودہ صورتحال سے دوچار صرف اور صرف شخصیاتی سیاست کی وجہ سے ہوا ہے پاکستان پیپلز پارٹی سے ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت ، مسلم لیگ (ن) سے نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف سے عمران خان کو مائنس کردیں نتیجہ صفر ہوگااس وقت عوام اپنے سیاسی قائدین کی شخصیات کے سحر میں مبتلا ہیں وہ اپنے قائد کا حکم ملتے ہی دیوانے ہوجاتے ہیں، قومی سلامتی کیلئے ضروری ہوگا کہ سیاسی قد آور شخصیات عوام میں نظریاتی سیاست کو فروغ دیں اس سے ان جماعتیں بھی منظم ہونگی اور ملک میں سیاسی و معاشی استحکام بھی آئے گا ترقی یافتہ ممالک میں سیاست نظریاتی و جماعتی بنیاد پر کی جارہی ہے شخصیاتی بنیاد پر نہیں جس کی وجہ وہاں سیاسی و معاشی استحکام ہے اگر ہم اپنے ملک میں سیاسی و معاشی استحکام چاہتے ہیں پھر ہمیں بھی نظریاتی و جماعتی سیاست کو فروغ دینا ہوگا ۔