شہباز شریف منی لانڈرنگ کیس کئی حوالوں سے اپنی نوعیت کا منفرد کیس ہے اور جس انداز میں یہ اپنے انجام کو پہنچا ہے یہ اس کی انفرادیت میں اور بھی اضافہ کر دیتا ہے۔ فرد جرم عائد کیے بغیر بریت کا فیصلہ بھی حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے اور ایف آئی اے کے موقف میں یکسر تبدیلی بھی کسی معجزے سے کم نہیں ۔ لیکن جب معاشرے میں اخلاقی اقدار ہی ختم ہو جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ گذشتہ کئی برس میںمنی لانڈرنگ اور وائٹ کالر کرائم سے متعلق بننے والا یہ ایک ایسا مقدمہ تھا جس میں سب سے زیادہ شواہد موجود تھے۔ 64 صفحات پر مشتمل بینک چالان اور سات والیمز پر مشتمل دستاویزات میں کیس سے متعلق درکار ہر معلومات موجود تھی۔ چودہ کم تنخواہ والے ملازمین کے 28 بینک اکائونٹس میں16 ارب روپے کی ٹرانزیکشنز کی ایک ایک تفصیل چالان میں موجود ہے۔ اس کے باوجود شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا اس مقدمے میں بری ہو جانا معجزے سے کم نہیں ۔ ایف آئی اے کے پاس یہ معلومات بھی موجود ہیں کہ شریف خاندان کی کمپنیوں میں یہ چودہ ملازمین کب کب بھرتی ہوئے۔ بھرتی کے وقت ان کی تنخواہ کتنی تھی۔ جب یہ مقدمہ بنایا گیا اس وقت یہ ماہانہ کتنی تنخواہ وصول کرتے تھے۔ بینک اکائونٹ کھولتے وقت اکائونٹ اوپننگ فارم میں ان کا جاب ڈسکرپشن یا عہدہ کیا تھا۔ ان کا اصل اکاونٹ نمبر کونسا ہے اور اس کے علاوہ شریف خاندان کے بے نامی دار کے طور پر انہوں نے کون کون سے اور کتنے بینک اکاونٹس کھولے۔ ایف آئی اے کے پاس یہ تفصیلات بھی موجود ہیں کہ شریف خاندان کے کس چپڑاسی، ٹی بوائے، کیش بوائے، کلرک یا کیشئرنے کس کس شہر میں کس کس بینک میں اکائونٹس کھلوائے اور ان اکائونٹس میں کس کس تاریخ کو کتنے کتنے ملین روپے کی ٹرانزیکشنز کی گئیں ۔ ایف آئی اے کی جانب سے عدالت کو جمع کرائے گئے چالان میں بتایا گیا ہے کہ ملک مقصود عرف مقصود چپڑاسی کے تمام آٹھ اکائونٹس میں 3741ملین روپے کی ٹرانزیکشنز ہوئیں۔ محمد اسلم نامی ملازم کے اکائونٹس میں 1677 ملین روپے آئے اور گئے۔ باقی تمام بارہ ملازمین کے اکائونٹس کا بھی یہی حال ہے۔ ان میں سے کوئی ملازم 2006 میں چار ہزار روپے پر بھرتی ہوا تھا تو کوئی سات ہزار روپے پر ۔ ان تمام چودہ ملازمین میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس کی 2017 میں تنخواہ27ہزار روپے سے زیادہ ہو۔ ملک مقصودجب رمضان شوگر مل کے سی ای او کے چپڑاسی کے طور پر بھرتی ہوا تو اس کی تنخواہ سات ہزار روپے مقرر ہوئی تھی۔ جب مرا تو 27 ہزار روپے لیتا تھا۔ باقی ملازمین کی تنخواہ اس سے کم ہی تھی۔ حیرت ہے کہ کسی کو اس بات پہ کوئی حیرت نہیں کہ شریف خاندان کے کم تنخواہ والے یہ 14 غریب ملازم اپنے اکائونٹس میں کس کے اربوں روپے لے کر پھر رہے تھے۔ روپے کس کے تھے انصاف کو یہ تو معلوم نہیں مگر انھیں یہ یقین ہے کہ یہ روپے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے نہیں تھے۔ مقصود چپڑاسی مرتے دم تک کرائے کے گھر میں رہتا تھا۔ اس کی موت کے بعد بھی اس کی فیملی چھوٹے سے ایک کرائے کے گھر ہی میں مقیم ہے۔کوئی تو بتائے کہ اس کے اکاونٹ میںآنے والے 3741 ملین روپے کس کے تھے اور کہاں گئے۔ وائٹ کالر کرائم کیا ہوتا ہے۔ کیا وائٹ کالر کرائم میں رقم کا اصل مالک یا بینیفشری نہیں دیکھا جاتا۔ کیا ان رقوم کا اصل بینیفشری شریف خاندان نہیں تھا۔ یا وہ پیسے شریف خاندان کے نہیں تھے۔ کیا یہ سادہ سوال نہیں پوچھ سکتا تھا۔کسی نے کسی بھی مرحلے پر شریف خاندان کے وکیل سے اس نوعیت کا ایک بھی سوال کیوں نہ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے کسی بھی مرحلے پر یہ نہیں کہا کہ یہ چودہ ملازمین ان کی کمپنیوں میں کام نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی یہ بھی نہیں کہا کہ چالان میں بینک اکائونٹس کی تفصیلات جعلی اور بوگس ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کبھی نہیں کہا کہ انہیں پھنسانے کے لیے ان کے ملازمین کے اکائونٹس میں یہ ٹرانزیکشنز بوگس طریقے سے ظاہر کی گئیں ہیں ۔ شریف خاندان نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ تمام رقوم ان چودہ ملازمین کی اپنی رقوم ہیں ۔ اس کے باوجود انہوں نے بریت کی درخواست دائر کی اور انہیں بریت دے بھی دی گئی۔نہ فرد جرم عائد ہوئی، نہ مقدمہ چلا ،نہ گواہان کے بیانات قلمبند ہوئے، نہ جرح ہوئی نہ جواب الجواب۔ بس عدالت نے ایف آئی اے پراسیکیوٹر سے پوچھا کیاشہباز شریف اور حمزہ شہباز براہ راست ملوث ہیں ؟ جواب ملا دونوں باپ بیٹے کا ان اکائونٹس اوراس میں ہونے والی ٹرانزیکشنز سے کوئی تعلق نہیں ۔ عدالت نے کہا تو چلیے دونوں باپ بیٹے کو با عزت بری کیا جاتا ہے۔ یہ کیس بہت سے کاروباری حضرات کے لیے دو نمبری اور جعل سازی کے راستے پیدا کرے گا۔ آپ اپنے ملازمین کے نام پر اکائونٹ کھولیں،اس سے منی لانڈرنگ کا دھندا کریں،جب پکڑیں جائیں اور کیس بنے توکٹہرے میں جا کر شہباز شریف اور حمزہ شہباز منی لانڈرنگ کیس کا ریفرنس دیں۔ استدعا کریں کہ جیسے ان دونوں کو بری کیا مجھے بھی بری کیا جائے۔امید ہے عدم شواہد کی بنیاد پر آپ بھی ’’انصاف‘‘ سے نوازے جائیں گے ۔