اسحاق ڈار صاحب نے مولانا فضل الرحمن صاحب کی ’’شرعی معیت‘‘ میں یہ اعلان کیا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے شہید چیف جسٹس نور محمد مسکانزئی کی سربراہی میں جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین شیخ کے ساتھ 28 اپریل 2022ء کو جو رباء (سود) کے خلاف فیصلہ دیا تھا اور جس کے خلاف انہی کے لیڈر اور وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت بذریعہ سٹیٹ بینک اور نیشنل بینک، چار پرائیویٹ بینکوں کو ہمراہ لے کر 26 جون 2022ء کو سپریم کورٹ کے شریعت بینچ میں اپیل دائر کی گئی تھی، وہ اپیل ہم واپس لے رہے ہیں اور یوں ہم اس ملک کو سودی نظام سے پاک کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ تالیاں بجائی گئیں، مبارکباد کا شور ہوا، شکرانے کے نفل پڑھے گئے، جمعہ کے خطبوں میں مولانا فضل الرحمن کی ’’جمہوری سیاست‘‘ کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ لیکن دو دن بعد جب ریاستِ پاکستان کے وکیل سلمان اکرم راجہ کو پٹیشن دے کر شریعت اپیلٹ بنچ بھیجا گیا، تو اس میں چار نجی بینکوں کو شامل نہیں کیا گیا۔ کس خوبصورتی سے حکومت نے انہیں اس ’’عظیم کارنامے‘‘ میں شریک نہیں کیا۔ اس طرح کا دھوکہ اس ملک میں پہلی دفعہ نہیں دیا جا رہا۔ قائد اعظمؒ کے بعد آنے والی ہر حکومت نے سود کے تحفظ میں بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالا ہے۔ قائد اعظمؒ نے یکم جولائی 1948ء کو سٹیٹ بینک کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا، ’’میں نہایت توجہ اور دلچسپی کے ساتھ آپ کے تحقیقاتی ادارے کے اس کام پر نگاہ رکھوں گا جو اسلام کے معاشی اور سماجی مقاصد کی مطابقت میں بینکنگ کے عملی کام کے حوالے سے کیا جائے گا‘‘۔ قائد اعظمؒ کے انتقال کے آٹھ سال بعد سٹیٹ بینک کا ایکٹ مجریہ 1956ء آیا، جس میں جدید سودی بینکاری نظام کو مکمل طور پر تحفظ فراہم کیا گیا۔ تمام حکومتیں اس وقت سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے دکھاوے کی کارروائیاں کرتی رہی ہیں۔ 1964ء سے 1966ء تک ایوب خان کی اسلامی نظریاتی کونسل نے حکومت کے کہنے پر سودی نظام پر کام کیا اور بینکاری سود کو حرام قرار دے دیا۔ اس کے بعد یحییٰ خان نے ایک بار پھر یہ معاملہ اسی نظریاتی کونسل کے سامنے رکھا اور انہوں نے تین دسمبر 1969ء کو اپنی پرانی رپورٹ کا ہی اعادہ کر دیا۔ بھٹو نے آئین کے آرٹیکل 38(ایف) میں لکھ تو دیا کہ حکومتی جتنی جلد ممکن ہو سکے سود کا خاتمہ کرے، لیکن اپنے سارے دورِ اقتدار میں اس نے ایک قدم بھی اس کی سمت نہ بڑھایا۔ ضیاء الحق نے اسلامی آئینی اصلاحات کیں اور 1980ء میں وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کا شریعت اپیلٹ بنچ قائم کیا، لیکن دس سال کے لئے معاشی معاملات سننے پر پابندی لگا دی۔ دس سال بعد بند ٹوٹا تو 1990ء میں 115 درخواستیں وفاقی شرعی عدالت جمع ہو گئیں، جن پر اکتوبر 1991ء میں وفاقی شرعی عدالت نے 157 صفحات پر مشتمل فیصلے میں یکم جولائی 1992ء سے بینکاری کے تمام سود کو حرام قرار دے دیا۔ اس فیصلے کے خلاف انہی اسحاق ڈار صاحب کے قائد وزیر اعظم نواز شریف خود سپریم کورٹ میں اپیل میں چلے گئے۔ پھر ایک خاص مکاری کے ساتھ سات سال نواز شریف اور بے نظیر کی وزارتِ عظمیٰ نے سپریم کورٹ کا شریعت بنچ ہی بننے نہ دیا۔ مشرف برسرِ اقتدار آیا تو یہ بنچ روزمرہ کی روٹین میں ازخود بن گیا جس نے فوری طور پر اپیل کو سنا اور 23 دسمبر 1993ء کو ایک ہزار صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ دیا اور 30 جون 2001ء تک حکومت کو تمام سودی بینکاری کو ختم کرنے کا حکم دے دیا۔ پرویز مشرف نے پھر ایک شاطرانہ چال چلی، وہی جو آج ڈار صاحب نے چلی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل ایک پرائیویٹ بینک سے کروائی گئی اور کہا گیا کہ حکومت تو اس میں فریق ہی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ چار جج جنہوں نے سود کے خلاف فیصلہ کیا تھا ان میں سے دو جسٹس خلیل الرحمن اور جسٹس وجیہہ الدین احمد کو پی سی او کے تحت فارغ کر دیا گیا۔ مولانا تقی عثمانی سے پی سی او کے تحت تو حلف اُٹھوا لیا گیا مگر فوراً ہی ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے انہیں کہا گیا کہ اب آپ کی ضرورت نہیں ہے۔ پی سی او کے تحت بننے والے چیف جسٹس شیخ ریاض کی سربراہی میں شریعت بنچ تشکیل دیا، جس میں علماء کرام کے نام پر اسلامیات کے پروفیسر ڈاکٹر رشید جالندھری اور قاضی فاروق کو شامل کر کے سپریم کورٹ کی تاریخ کا یہ انوکھا اور واحد نظرثانی کا فیصلہ لکھا گیا، جس میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کو تو کالعدم قرار دے دیا مگر اس کی جگہ خود اپنا کوئی فیصلہ تحریر نہیں کیا، بلکہ انتہائی چالاکی سے معاملہ کو واپس وفاقی شرعی عدالت کو بھیج دیا کہ وہ اپنے ہی فیصلے پر نظرثانی کرے۔ مقصد صرف یہ تھا کہ اگر سپریم کورٹ خود اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتی تو یہ معاملہ فوراً نمٹ جاتا۔ جان بوجھ کر وفاقی شرعی عدالت کو اس لئے بھیجا گیا تاکہ اگر دوبارہ وہ سود کے خلاف فیصلہ کریں گے تو ہم پھر دوبارہ دیکھ لیں گے۔ بیس سال یہ مقدمہ وفاقی شرعی عدالت کی ’’غلام گردش‘‘ میں گھومتا رہا اور عدالت نے اپنی 1991ء کی پٹیشن نمبر 30-L پر ایک دفعہ پھر فیصلہ دیتے ہوئے تمام بینکاری سود کو حرام قرار دیا اور حکومت کو اسے درست کرنے کے لئے 2027ء تک پانچ سال کی مہلت دے دی۔ اسی فیصلے کے خلاف حکومت بذریعہ سٹیٹ بینک، چار ماتحت بینکوں کی ہمرکابی میں سپریم کورٹ کے شریعت بنچ میں اپیل میں چلی گئی۔ ایک اور حیران کر دینے والی بات یہ ہے کہ چیف جسٹس پاکستان مسلسل شریعت اپیلٹ بنچ کو بار بار توڑتے رہتے ہیں جبکہ آئین کے باب (A)III کے مطابق سپریم کورٹ میں ایک مستقل شریعت اپیلٹ بنچ ہونا چاہئے۔ گذشتہ 23 ماہ سے سپریم کورٹ میں کوئی شریعت اپیلٹ بنچ نہیں ہے۔ آخری دفعہ دسمبر 2020ء میں ایسا ایک بنچ پانچ دن کے لئے بیٹھا تھا اور پھر اسے توڑ دیا گیا۔ یعنی اگر وفاقی شرعی عدالت کے خلاف یہ پرائییوٹ بینک اپنی پیلیں واپس نہ بھی لیں تو حکومت بذریعہ سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ نہ بنا کر مسئلہ کو التواء میں ڈال سکتی ہے۔ مثلاً حکومت اس میں علماء ججوں کی نامزدگی نہ کرے۔ شریعت کی اہمیت ہماری حکومتوں کے نزدیک اس قدر غیر اہم ہے کہ اس وقت وفاقی شرعی عدالت میں آٹھ ججوں کی آسامیاں ہیں اور ان میں سے چھ خالی پڑی ہیں۔ نور محمد مسکانزئی کی اپریل میں ریٹائرمنٹ کے بعد چھ ماہ سے چیف جسٹس کا عہدہ بھی خالی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے قوانین کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کے لئے 1985ء سے لے کر اب تک 29 فیصلے کئے ہیں جن کے خلاف حکومت سپریم کورٹ میں اپیل میں گئی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نہ کوئی شریعت اپیلٹ بنچ تخلیق کرتے ہیں اور نہ ہی ان اپیلوں کی کوئی شنوائی ہوتی ہے۔ اس ملک میں شریعت سپریم کورٹ کی الماریوں میں پڑی فائلوں میں قید ہے۔ کس قدر آسان ہے کہ سٹیٹ بینک جو اس وقت ملک میں 29 لوکل اور 4 غیر ملکی بینکوں کا ریگولیٹر ہے۔ وہ اپنے ریگولیشن میں حکومتی منشا کے مطابق فوراً اس فقرے کا اضافہ کر دے کہ وفاقی شرعی عدالت کے حکم کو منظور کیا جاتا ہے اور کوئی بینک اس کے خلاف اپیل نہیں کر سکتا، یا پھر حکومت خود سٹیٹ بینک کے قانون میں یہی دفعہ شامل کر دے تو پھر ان چاروں بینکوں کے پاس کوئی اور چارہ ہی نہیں رہے گا، سوائے اس کے کہ وہ اپنی اپیل واپس لے لیں، بصورتِ دیگر اس بنیاد پر ان کے لائسنس کینسل کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن شاید ہم ایسا کبھی نہ کریں۔ مگر اُمید رکھنی چاہئے کہ تصّوف کے دلدادہ اسحاق ڈار صاحب، مولانا فضل الرحمن کے ’’دبائو‘‘ میں آ کر اور یہ ’’دبائو‘‘ ایسا ہے کہ حکومت گرا بھی سکتا ہے، کوئی ایسا قانون منظور ہی کر دیں تو پھر کمال ہو جائے۔ لیکن ہم پھر بھی سٹیٹ بینک کے اسی اختیار کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں جا رہے ہیں جس کے مطابق اس شرعی عدالت حکم سے فرار کے کئی راستے ہیں جو سٹیٹ بینک کے قانون مجریہ 1956ء میں موجود ہیں۔ آج مورخہ 14 نومبر 2022ء کو وفاقی شرعی عدالت میں اس کی سماعت ہے۔ احباب سے دعائوں کی درخواست ہے۔