وہ بڑے انسان تھے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب ان کی زندگی کا آفتاب ڈوبا تو ان کی یادوں کا سورج طلوع ہو گیا ہے۔ نہ دل مانتا ہے نہ ذہن کہ انہیں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ یہ تو اٹل حقیقت ہے کہ زندگی فانی ہے لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ان کو چاہنے والا ہر کوئی ان کی یادوں کا اُجالا اپنے اردگرد پھیلا ہوا محسوس کر رہا ہے۔ امجد اسلام امجد کیا خوب انسان تھے۔ حال ہی میں جب خانہ کعبہ میں حاضری کا شرف نصیب ہوا، تو رب ذوالجلال کے گھر کے سامنے دھڑکتے دل اور بھیگی پلکوں کے ساتھ لبوں پر یہ دعا تھی ’’یا رب ان سب کو معاف کر دے جنہوں نے کبھی بھی میرا دل دکھایا ہو، مجھ سے بدسلوکی کی ہو‘‘ زندگی کے آخری لمحوں میں یہ زندہ دل انسان ہم سب کو یہ سبق تو پڑھا گیا کہ محبت زندگی ہے اور دوسروں کو معاف کرنا اور درگزر کرنا حبیب خدا کا اسلوب اور سنت ہے۔ امجد اسلام امجد کی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو یقین آ جاتا ہے کہ کام سے لگن جستجو اور محبت انسان کو وہ مقام ضرور دلا دیتی ہے جس کا وہ مستحق ہوتا ہے۔ ایک دن کہہ رہے تھے ’’اس ملک میں ہزاروں لوگ لکھ رہے ہیں لیکن ان کی تحریریں اثر سے خالی ہیں اس کی وجہ ہرگز یہ نہیں کہ وہ برا لکھتے ہیں ،محبت نہیں کرتے، یا ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ان میں اکثر ’’کرافٹس مین شپ‘‘ کی صلاحیت سے مالا مال ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کے لفظوں کو پہنچنے کی اجازت نہیں ملی۔ انہیں تیر بن کر سینوں میں اترنے کا حکم نہیں ملا۔ بس اتنی سی بات ہے باقی سب لفظوں کا گورکھ دھندہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب بھی امجد اسلام امجد کی نثر یا نظم پڑھیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے قلم نے لفظوں کو کہنے اور بولنے کا سلیقہ سکھایا، جو لکھا کیا خوب لکھا۔ شاعری کی تو برصغیر پاک میں ان کا نام گونجنے لگا۔ ڈرامے لکھے تو ہر طرف دھوم مچ گئی۔ ان کے کالم پڑھ کر احساس ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں آنکھیں بھی دی ہیں اور دماغ بھی، بعض فقرے تو ایسے زبردست کہ اردو زبان ان پر فدا ہو جاتی ۔ 2011ء سے ’’چشم کشا‘‘ کے عنوان سے روزنامہ ایکسپریس میں کالم لکھ رہے تھے۔ جنہیں ادبی، صحافتی اور سیاسی حلقوں میں بے پناہ عزت توقیر حاصل تھی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی نثر میں شعر کا ذائقہ اور شاعری میں نثر کا چسکہ تھا۔ اب وہ وہاں چلے گئے ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا لیکن وہ اتنے قد آور تھے کہ آئندہ جب بھی جہاں کہیں بھی شعر و سخن اور ادب کی محفلیں سجیں گی انہیں یاد رکھا جائے۔لائبریریوں کی الماریوں میں سجی ان کی کتابیں آپ کو ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔ ان کی شاعری کو نور جہاں، آشا بھوسلے اور لتا منگیشکر جیسی فنکارائوں نے اپنی آواز دے کر فخر محسوس کیا۔ یہ ماننا پڑے گا کہ لاہور نے اردو ادب کی بڑی خدمت کی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ لاہور نے ان سے متعلقہ شخصیات کو ایک عزت اور پہچان بھی عطا کی۔ فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، عطاء الحق قاسمی یہ سب دوسرے شہروں اور بستیوں سے آئے لیکن اگر امجد اسلام امجد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو یہ پکے لاہور ی تھے۔ اس کے باوجود کہ ان کی جائے پیدائش بھی اقبال کا شہر سیالکوٹ تھا لیکن انہوں نے اپنے تمام تعلیمی مدارج لاہور میں طے کیے۔ لاہور میں پنجاب یونیورسٹی سے انہوں نے ایم اے کیا پھر اسی شہر میں ان کا ادبی ذوق پروان چڑھتا گیا۔ ہمیشہ نسل نو کی حوصلہ افزائی کی۔کئی اہم سرکاری عہدوں پر بھی فائز رہے اور کئی تحقیقی شعبوں میں اپنے تحقیقی رنگ دکھائے۔ مجھے یاد ہے کہ یہ ڈرامہ ’’وارث‘‘ ہی تو تھا جس نے نہ جانے کتنے بلکہ بے شمار لوگوں کو امجد اسلام امجد سے متعارف کرایا تھا۔ یہ شاید ہمارے سکول کا دور تھا یہ وہ زمانہ تھا جب نہ موبائل فون تھا نہ انٹرنیٹ نہ کمپیوٹر کی یہ چکا چوند کر دینے والی دنیا تھی ۔میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ شاید ہم بہت خوش قسمت ہیں۔ جنہوں نے ان پچاسی سالوں کو دیکھا جب دو صدیاں بغل گیر ہوئیں۔ سائنسی ترقی نے سب کی عقل حیران کر دی۔ امجد اسلام امجد نے بھی اسی دور سے شہرت کا سفر کیا، جس دور میں تفریح کے لیے لے دے کر ریڈیو ہوتا تھا یا ٹی وی سینما میں بیٹھ کر فلم دیکھنا ایک تعیش تھا۔ ضیاء الحق کا دور آیا تو کچھ بکھرتے رنگ بھی سمٹ گئے۔ اس وقت ڈراموں کی کہانیاں بھی چند موضوعات تک محدود تھیں۔ اس فضا میں ڈرامہ ’’وارث‘‘ کا سفاک اور مکار کردار چودھری حشمت اپنے پوتے کی بے راہ روی پر جھومتا اور قہقہے لگاتا۔ اس کی سفاکی سے کچلے جانے والے افراد مختلف کرداروں کی صورت میں سامنے آئے تو لوگوں کو یوں لگا کہ یہ اس معاشرے کی سچی کہانی ہے ڈرامہ وارث نے امجد اسلام امجد کو 35سال کی عمر میں بحیثیت ڈرامہ نگار غیر معمولی بلندیوں تک پہنچا دیا ۔ جس دن ڈرامہ ٹی وی دکھایا جاتا سڑکیں ،بازار سنسان ہو جاتے۔ یہ ایک سچے قلمکار کی جانب سے جاگیرداری نظام کے مکروہ چہرے کی نقاب کشائی تھی۔ جس میں طاقت کا جنون بھی تھا اور غربت کا درد بھی۔ ڈرامہ وارث ان کے جادوگر قلم کا کمال تھا۔ ان کی کتابوں پر نظر ڈالیں تو اس میں سے کچھ لوح ذہن میں روشن ہیں۔ ’’میرے بھی ہیں کچھ خواب‘‘ ، ساتواں در، عکس، فشار برزخ، ایسی بے شمار شاہکار قلمی فن پارے جن کی اشاعت نے ان کی شہرت ک چار چاند لگا دیئے۔ وہ تو چلے گئے۔ ان کے بغیر ادبی فضا سوگوار ہو گئی ہے۔ ایسی قد کاٹھ کی ادبی شخصیات جو اس عہد کی پہچان ہیں۔ ایک ایک کر کے رخصت ہو رہے ہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ امجد اسلام امجد ایک زندہ دل شخصیت کا نام ہے جو اپنی تحریروں، نظموں اور دھڑکتی غزلوں میں زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کی وفات سے وطن ایک درد دل رکھنے والے شاعر ادیب اور ایک خوش فکر مفکر سے محروم ہو گیا ہے۔ ٭٭٭٭