ضیا محی الدین ہر لحاظ سے کلاسیک شخصیت اور ایک "کلاس" کے آدمی تھے ۔ان کا متنوع تخلیقی وفور فنون لطیفہ کے مختلف منطقوں پر اپنا اظہار کرتا رہا اور دنیا سے داد پاتا رہا ۔ انہوں نے صدا کاری میں معیار قائم کیا ، ہالی ووڈ کی آرٹ فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے پھر سٹیج شو کی بھر پور میزبانی کی، پاکستان میں فنون لطیفہ کے معتبر ادارے بنائے۔کراچی میں ناپا کی بنیاد رکھی اور معیاری تھیٹر کو رواج دیا۔انہوں نے جو کام بھی کیا اس کو ایک اعلی سطح کے معیار تک پہنچایا کہ پھر کوئی دوسرا ان کے مقابلے پر دکھائی نہیں دیا۔ ایک خاص کلاس اور معیار ہی ان کی پہچان تھا ورنہ اداکاری، صداکاری اور میزبانی تو یہاں کئی کررہے ہیں۔ان کے بارے میں بہت کچھ نہ جاننے والے بھی ان کے بارے میں تاثر رکھتے تھے کہ یہ نستعلیق شخص ایک کلاس ہے اور باقیوں سے ممتاز ہے۔ اگرچہ ہماری نسل نے ان کی اداکاری نہیں دیکھی مگر یہ ہمیشہ سنا کہ انہوں نے ہالی ووڈ کی فلموں میں بھی کردار ادا کیے۔ تھیٹر پر شیکسپیئر کے ڈرامے کیے۔ شیکسپیرئین انگریزی کی ڈائیلاگ ڈلیوری کسی عام شخص کے بس کی بات ہے ہی نہیں۔ شیکسپیئر کے کلاسیک ڈرامے ہیملٹ کے صفحات کے صفحات انہیں ازبر تھے۔یو ٹیوب پر ضیاء محی الدین کی شیکسپیئر ین ڈراموں کی عمدہ پڑھت کے ٹکڑے موجود ہیں۔آواز کے ساتھ ساتھ ان کے چہرے کے خدوخال بھی خواندگی اور معنویت کو سننے والوں تک پہنچانے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح وہ ہمیں فیض کی نظموں ، مشتاق یوسفی کے نثر پاروں اور اردو زبان وادب کی دیگر چنیدہ تحریروں کو پڑھتے نظر آتے۔ ہماری نسل کے بیشتر لوگوں نے پہلے پہل ضیا محی الدین کو ان کے تحت اللفظ میں پڑھے میر انیس کے مرثیوں سے پہچانا تھا۔محرم الحرام میں پی ٹی وی پر یہ روایت ہوتی تھی کہ دس دن مختلف بڑے کلاسیکل شعرا کے لکھے ہوئے مرثیوں کو تحت اللفظ میں ریکارڈ کر کے چلایا جاتا۔ اور اس ہنر میں ضیاء محی الدین کا کوئی ثانی نہ تھا۔ وہ جس طرح سے لفظ کے اندر اتر کر اس کے معنی کھولتے اور اسے اپنی آواز کا پیراہن پہناتے وہ درجہ کمال پر تھا۔ ان کا لہجہ ،آواز کا زیروبم سننے والے کو اپنے حصار میں لے لیتا تھا۔ یادداشت میں ضیا محی الدین کے ایسے کئی شاہکار اڑان بھرتے ہیں جس میں شاعری پڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ن م راشد کا زندگی سے ڈرتے ہو زندگی تو تم بھی ہو، ہم نے ضیا محی الدین کی آواز میں سنا اور زمانہ طالب علمی میں خود بھی ہم اس کی خوب نقالی کیا کرتے تھے۔ اس دور میں مجھے نظموں کو با آواز بلند پڑھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ،میں اکثر سہ پہر کے وقت چھت کو جاتی ہوئی سیڑھیوں کے درمیان بیٹھ جاتی اور دکھائی نہ دینے والے سامعین کے سامنے اپنی پسند کی نظمیں اور اشعار تحت اللفظ میں پڑھا کرتی تھی۔ اس طرح پڑھنے کی تہذیب ہم تک ایسے ہی بڑے لوگوں کے ذریعے پہنچی۔ اس دور میں یقینا پی ٹی وی ہی وہ ذریعہ تھا جس کے معیاری پروگراموں کے ذریعے سے یہ سب کچھ ہم تک پہنچا۔ اس وقت کے ٹاک شوز دیکھ کر بات کرنے کا سلیقہ آتا ۔ٹی وی کے میزبانوں میں طارق عزیز، قریش پور،مستنصر حسین تارڑ، عبید اللہ بیگ۔لئیق احمد،۔ ضیا محی الدین جیسے پڑھے لکھے لوگ شامل تھے ہیں جن کو سن کر بات کرنے کا سلیقہ سیکھتے اور اپنا تلفظ درست کرتے۔ پی ٹی وی کے دور سے الیکٹرانک میڈیا کے ٹی وی چینلوں اور پھر بھانت بھانت کے یوٹیوبرز اور قسم قسم کے سوشل میڈیائی ولاگرز تک آتے آتے ہم نے بہت کچھ کھو دیا ہے۔پورا ایک تہذیبی منظر نامہ تبدیل ہو کے رہ گیا ہے۔جس کا ایک عکس آپ کو اس وقت الیکٹرانک میڈیا کے ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز میں نظر آئے گا۔ وہ ضیا محی الدین، قریش پور جیسے ہنروروں کا دور تھا جب شاعر طرح دار احمد فراز نے کہا تھا سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں احمد فراز کو شہر خموشاں کا مکین بنے برس گزر گئے۔ باتوں سے پھول جھڑنے کا زمانہ پرانا ہوگیا۔ میزبانوں کا دور بیت گیا اب اینکروں کی ریٹنگ پرور ہنروری کا زمانہ ہے۔اب گفتگو نہیں کی جاتی سامنے والے کو باتوں کے گھونسے مارے جاتے ہیں۔ بات کرنے اور بات سننے کی ایک تہذیب ہوتی تھی جسے ہم نے وقت کی تیز رفتاری کا مقابلہ کرتے ہوئے کھودیا ہے۔ غضب خدا کا کہ جس سکرین کو ضیا محی الدین اپنی نستعلیق آواز اور اپنی پروقار شخصیت سے آکر سجایا کرتے تھے اب ایسے ایسوں کی بے ہنگم ،بے معنی بے مغز باتوں میں الجھ چکی ہے جن کا نہ کتاب سے واسطہ نہ ادب سے کوئی علاقہ ہے ،بس روشنی کی رفتار سے پٹر پٹر بولنا جن کی واحد خوبی ہے۔ہمارے حق میں یہ سب اچھا ہوا ہم نے اپنے وقتوں کی خوبصورت چیزوں کو اپنے دل و ذہن میں جگہ دے کر محفوظ کر لیا اور اب ہم اس خوشبو کو محسوس کرتے رہتے ہیں اور آج کے دور کے ہنگام سے ہمارا ذوق نہیں ملتا تو ہم اس سے دور رہنے ہی میں عافیت اور سکون محسوس کرتے ہیں۔ کسی زمانے میں تفریح کے نام پر ضیا محی الدین شو ہوا کرتے تھے وہ بلیک اینڈ وائٹ کا زمانہ تھا ہم نے وہ شو نہیں دیکھا لیکن اس کے کچھ ٹکڑے دیکھے ہیں۔پھر نیلام گھر تفریح کے نام پر بہت اچھا پروگرام ہمارے دور میں ہوتا تھا۔ اس کے بعد بے ہنگم اچھل کود والے گیم شو ،موٹرسائیکل اور موبائل کے تحفے جہاں ہوا میں اچھا لے جاتے ہیں اور اچھے خاصے مہذب لوگ ان موبائل فونوں کے حصول کے لیے عجیب وغریب بندروں جیسی حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں۔کمال کے بعد ایک زوال ہے جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور دیکھ رہے ہیں۔ ضیا محی الدین 91 برس کی بھر پور زندگی گزار کر کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔انہوں نے اپنے منفرد اور معیاری ترین کام کے ذریعے سماج کو بہت کچھ دیا۔ افریقی قبیلوں کی ایک روایت ہے کہ ایسے بڑے لوگوں کے مرنے پر جو طویل عمر گزار کر اپنے حصے کا بہترین کام کرکے جائیں تو ان کے مرنے پر لوگ گیت گاتے ہیں اور رقص کرتے ہیں ۔ یہ شکرانے کا اظہار ہے کہ ایسے شاندار لوگ ہمارے درمیان موجود رہے ہم نے ان کا عہد دیکھا۔ضیاء محی الدین بھی ہمارے عہد کی ایسی ہی بے مثال اور شاندار شخصیت تھے۔