گزشتہ ایک ہفتہ پاکستانی سیاست میں بہت اہم اور پریشان کن رہا۔پل پل بدلتی صورت حال نے ہم سب کو عجیب و غریب درد سے دوچار کیے رکھا۔ایک طرف سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری اور گرفتاری بھی ایسی جس کی پاکستانی سیاست میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ایک ایسا انسان جس نے پوری دنیا میں پاکستان کا دفاع کیا ہو اور ہمیشہ کرپشن فری پاکستان کا خواب دیکھا ہو‘اس پر کرپشن کا الزام لگانا اور اسے احاطہ عدالت سے ایسے پکڑنا جیسے خدانخواستہ وہ کلبھوشن یادیو سے بڑا دہشت گرد ہے‘۔پھر جس رقم کی بات کی جا رہی ہے‘اس کی منظوری پوری کابینہ نے دی تھی‘کابینہ کو بھی نظر انداز کر کے صرف ایک انسان سے انتقامی کاروائی کرنا‘پی ڈی ایم کا اوچھا ہتھکنڈہ تھا جو بہرحال عدالت عظمیٰ نے ناکام بنا دیا۔یہاں یہ بات بہرحال قابلِ غور ہے کہ وہ گرفتاری جسے قانونی کہا جارہا تھا‘اسے دوسرے دن سپریم کورٹ نے غیر قانونی کیوں کہا؟اس کا مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں غلطی موجود تھی یا پھر غلطی کروائی جا رہی تھی۔عمران خان کی رہائی کے بعد ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا‘پی ڈی ایم سپریم کورٹ پر الزام تراشی کر رہی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ عمران سے لاڈلوں والا سلوک کیوں کر رہی ہے۔ یہ بات سن کر بہت حیرانی ہو رہی ہے ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب فیصلہ سیاست دانوں کے حق میں آتا ہے‘ہم اعلیٰ عدلیہ کو سر آنکھوں پر بٹھا لیتے ہیں اور جب یہی اعلیٰ عدلیہ کوئی فیصلہ خلاف دیتی ہے‘ہم اس پر الزام تراشیاں بھی کرتے ہیں اور اسے گندہ کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں‘یہ رویہ کسی بھی سیاسی پارٹی کی طرف سے ہو‘ناقابلِ قبول ہے۔ عمران خان کی گرفتاری سے ایک دوسرا پہلو بھی سامنے آتا ہے جس پر سوچنے اور تحقیق کرنے کی اشد ضرورت ہے۔عمران کی گرفتاری کے بعد پورے ملک میں جیسے توڑ پھوڑ کی گئی‘سرکاری املاک اور دفاعی تنصیبات کو نقصان پہنچایا گیا‘اس کے پیچھے کون لوگ تھے‘یہ جاننا بہت ضروری ہے۔ تحریک انصاف اس بات سے مکمل انکاری ہے اور عمران خان واضح کہہ چکے کہ میرے کارکن ایسا بالکل نہیں کر سکتے لہٰذا میں ذاتی طور پر بھی نہ صرف جلائو گھیرائو کی مذمت کرتا ہوں بلکہ ایسے گھنائونے کرداروں کے خلاف سخت کاروائی کا خواہش مند ہوں مگر ہمیں یہاں اس بات کا خیال ضرور رکھنا ہے کہ ملک میں انتشار تحریک انصاف کے کارکنوں نے پھیلایا یا پھر بہروپیے تھے جنھوں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے پورا ملک آگ میں دھکیل دیا اور ہم سب اس کا الزام ایک سیاسی پارٹی پر لگا رہے ہیں۔مجھے ذاتی طور پر عمران خان کی تجویز پسند آئی کہ اس کی کاروائی یا تو اعلیٰ عدلیہ کرے یاپھر کوئی نیوٹرل کمیٹی بنائی جائے جو سچ کی بنیاد پر ان کرداروں کا تعین کرے‘جنھوں نے پورے ملک کو تباہی کی جانب دھکیلنے کی مذموم کوشش کی۔حکومت پر اس لیے بھی ہم سب اعتماد نہیں کر سکتے کہ حکومتیں (چاہے کسی پارٹی کی بھی ہو)بہرحال کہیں نہ کہیں سیاسی پسند نا پسند کا شکار ہو جاتی ہیں‘یہ معاملہ اس قدر سنگین اور تکلیف دہ ہے کہ اس کے لیے پی ڈی ایم کو بھی اپنی انا ایک طرف رکھتے ہوئے قومی مفاد کی خاطرانتہائی احتیاط سے اور نیوٹرل رویے کے ساتھ تحقیق کرنی ہوگی کیوں کہ جنہوں نے یہ کیا‘وہ کل نو ن لیگ کے کارکنوں کے روپ میں بھی یہ دوبارہ کر سکتے ہیں۔لہٰذا انتہائی ضروری ہے کہ ایسے کرداروں کو بے نقاب کیا جائے اور ملبہ تحریک انصاف پر ڈالنے کی بجائے حقیقی عناصر تک پہنچا جائے۔ عمران کی گرفتاری اور رہائی کے بعد جو کچھ سپریم کورٹ کے ساتھ اتحادی جماعتوں نے کیا‘اس کی بھی مذمت کیجانی چاہئے۔ تمام جماعتوں کو اس خوفناک رویے سے باہر آنا ہوگا کہ ججز ہمارے حق میں فیصلہ دیں تو اچھے اور اگر ہمارے خلاف فیصلہ آئے تو خدانخواستہ وہ کرپٹ ہیں۔سپریم کورٹ نے 14مئی انتخابات کی تاریخ مقرر کر رکھی ہے اور ہماری حکومت انتخابات کی بجائے چودہ مئی کو سپریم کورٹ کے سامنے دمادم مست قلندر کرنے کے لیے اکٹھی ہو رہی ہے‘کیا یہ الیکشن سے بھاگنے کا آسان بہانہ نہیں؟۔کبھی ایسا سنا یا دیکھا کہ کسی سیاسی جماعت نے اپنے دورِحکومت میں دھرنے کا اعلان کیا ہو‘پی ڈی ایم کرنے جا رہی ہے اور اگر بات صرف دھرنے کی ہوتی تو شاید اتنی حیرانی نہ ہوتی‘دکھ تو یہ ہے کہ فضل الرحمن نے جیسے ہاتھ کے بدلے ہاتھ‘سر کے بدلے سر اور ٹانگ کے بدلے ٹانگ مانگی ہے‘یہ سیدھا سیدھا ملک کو دوبارہ جنگ کی طرف دھکیلنا ہے۔اگر تحریک انصاف یا کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کے کارکنوں کا ایسا احتجاج خلافِ قانون ہے تو فضل الرحمن کے لیے دوہرا معیار نہیں ہونا چاہیے‘اگر آج سپریم کورٹ کے سامنے انارکی پھیلائی جاتی ہے اور ملک کو توڑ پھوڑ کی جانب دھکیلا جاتا ہے تو ہماری حکومت اور اداروں کو جمعیت علمائے اسلام اور ان کے حمایتی جماعتوں سے بھی وہی سلوک کرنا ہوگا جس کے وہ حقدار ہیں۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک طرف نو مئی جو کچھ ہوا‘ہم اس کی مذمت کرتے رہیں اور دوسری جانب ہمارے ہی اتحادی ہمارے سمیت اس خوفناک صورت حال کو دوبارہ دہرائیں۔پاکستان انتہائی مشکل وقت سے گزر رہا ہے‘ہم سب اس ملک کے شہری ہیں‘یہ ہمارا گھر ہے اور ہم نے اسی گھر میں زندگیاں گزارنی ہیں‘یہ سیاسی بہروپیے تو یہاں صرف حکومت کرنے آتے ہیں‘ان کی جائیدادیں اور بچے ملک سے باہر ہیں اور زندگیاں وہاں ہی گزاریں گے‘لہٰذا ان کی وجہ سے اپنے گھر کو نقصان بالکل نہ پہنچائیں‘بہروپیوں کی وجہ سے اپنے گھر کو آگ نہ لگائیں کیوں کہ یہ گھر تعمیر بھی ہم ہی کریں گے۔جتنا بھی ملک کا نقصان ہوا‘اس کا ازالہ ہم سب نے کرنا ہے‘ ہمارے ٹیکسوں سے ہی یہ سرکاری املاک دوبارہ تعمیر ہوں گی لہٰذا جب ازسرنو بھی ہمارا ہی خون نچوڑا جائے گا تو ایسی غلطی کریں ہی کیوں۔یہ ملک ہمارا ہے اور ہم نے ہی اس کی حفاظت کرنی ہے‘کوئی پاگل ہی اپنے گھر کو جلائے گا۔ہم سب کو محب وطن بننا ہے اور یقین جانیں سچا محب وطن وہی ہوتا ہے‘جو ملک کا مستقل باشندہ ہوتا ہے‘الحمد اللہ ہم سب محب وطن ہیں اور ہمیں پاک سر زمین اور اس کے اداروں کی عزت کرنی ہے تاکہ دنیا ہمیں عزت دے سکے۔