عربی میں " غدیر"پانی کے تالاب یا چشمہ کوکہتے ہیں ، خم کا معنی ہے ڈھلان یا نشیبی علاقے کی طرف روانگی۔ "غدیرِ خُم" ایک موضع ہے ، جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان، حجفہ سے تقریباً اڑھائی کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے ، یہ وہ مرکزی مقام تھا ،جہاں سے جزیرہ ٔ عرب کے تمام اطراف واکناف کو راستے نکلتے اور10 ہجری کو حجتہ الوداع کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی معیت اور مصاحبت میں حج ادا کرنے کی سعادت سے بہرہ مند ہونے کے لیے عرب کے گوشہ گوشہ سے لوگ یہیں پر کھنچے چلے آئے ، مختلف علاقوں سے حجاج اور عُشّاقانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قافلے ہمرکابی کے شرف سے باریاب ہوئے ، اور حج سے فراغت کے بعد ، یہیں سے اپنے اپنے علاقے اور اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہونے کو تھے کہ بعض لوگوں کے دلوں میں سیّد علی المرتضیٰؓکے بے داغ سیرت و کردار کے بارے میں کچھ بے بنیاد غلط فہمیاں پیدا ہوگئی تھیں، جن کا ازالہ ضروری تھا ، معاملہ یہ ہوا کہ سفرِ حج سے تقریبا ًتین ماہ قبل ، حضرت علی المرتضیٰؓ کو تین سو شہسواروں کا امیر بنا کر ، دوسری مرتبہ یمن کی طرف روانہ کرتے ہوئے ، از خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا پرچم باندھا اور علی المر تضیٰؓ کے حوالے کیا ، اپنے دستِ مبارک سے ان کے سرِ اقدس پر دستارباندھی اور روانہ کرتے ہوئے وصیت فرمائی کہ اے علی ! اب آپ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجائیں ، دائیں بائیں کسی چیز کی طرف التفات نہ کرنا ۔ آپؓ نے عرض کی ، یارسول اللہ !اس سفر میں میر ا طرزِ عمل کیسا ہونا چاہیے ؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب دشمن کے علاقے میںپہنچوتو اس وقت تک جنگ شروع نہ کرنا ، جب تک وہ حملہ کرنے میں پہل نہ کریں، اور اگر وہ حملہ کردیں تو اُس وقت جوابی کارروائی نہ کرنا، جب تک آپ ؓ کے لشکر کا کوئی مجاہد شہید نہ ہوجائے ، اور اگر وہ آپؓ کے کسی مجاہد کو شہید کردیں، تو پھر بھی صبر و تحمل سے کام لیں اور اللہ کی واحدانیت کا اعلان کریں ، اگر وہ اللہ کی واحدانیت کا اقرار کرلیں اور نماز کے لیے آمادہ اور اموال سے صدقہ و زکوۃ کے لیے تیار ہوجائیں تو پھر ان سے کسی قسم کا کوئی تعرض اور مزید مطالبہ نہ کرنا۔ خدا کی قسم !اگر اللہ تعالیٰ آپؓ کے ہاتھ پر ایک آدمی کو بھی ہدایت عطا فرمادے ، تو یہ سعادت ، ان تمام چیزوں سے بہتر اور افضل ہے ، جس پر سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے ۔ سیّد ناعلی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ اس مہم پر روانہ ہوئے ، کچھ تعارض اور جھڑپوں کے بعد اسلامی لشکر فتح و نصرت سے سرفراز ہوا۔ اموالِ غنیمت کو پانچ حصّوں میں تقسیم کیا اور پھر قرعہ اندازی سے ایک حصّے کو " خُمس" کے نام پر مختص کردیا ۔ جس کو بارگاہِ مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پیش کرنے کا اعلان ہوا ۔لوگوں نے خُمس سے بھی حصّے کا مطالبہ کیا لیکن آپؓ نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا، کہ یہ خُمس ہے ، یہ بارگاہِ رسالتمأب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پیش ہوگا، اور اس کی تقسیم کا فیصلہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منشاکے مطابق کیا جائے گا۔ اس "خُمس" میں یمنی چادروں کی کئی گانٹھیں جبکہ اموالِ غنیمت میں اونٹ اور دیگر سامان کثیر تعداد میں موجودتھا ۔ آپؓ نے حضرت ابو رافعؓ کو اموال ِخُمس کی نگرانی اور دیگر امور کی ذمہ داری تفویض فرمائی ، مزید براں آپؓ نے صدقہ کے اونٹوں پر سواری اورخُمس کے پارچہ جات کے استعمال کا مطالبہ بھی مستر د فرمادیا۔ دریں اثنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجتہ الوداع کے لیے مکہ مکرمہ تشریف فرما ہوچکے تھے ، حضرت علی المرتضیٰؓ اس مہم کو سَرکر تے ہوئے ، قدرے تیزی سے، بارگاہِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری کے شرف سے فیضیاب ہوئے ۔ حضرت علی المرتضیٰؓ کے مکہ کی طرف روانگی کے بعد، مالِ خمس میں احرام باندھنے کے لیے بعض احباب نے دو دو چادریں حاصل کرلیں ۔ یہ قافلہ حدود ِ حرم میںداخل ہوا تو حضرت علی المرتضیٰؓؓ ان کی پیشوا ئی کے لیے جب مکہ سے باہر تشریف لائے ، تو آپ ؓ نے دیکھا کہ میرے منع کرنے کے باوجود، انہوں نے خُمس کے پارچہ جات سے چادریں لے کر احرام باندھ رکھے ہیں ، حالانکہ قبل ازیں،ان کا یہ مطالبہ مسترد کیا جاچکا تھا ۔ حضرت علی المرتضیٰؓ نے چادروں کی واپسی کے احکام جاری فرمادیئے ۔ لشکر یوں نے بارگاہِ رسالتمأب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شکایات پیش کردیں۔ حضرت علی المرتضیٰؓ نے عرض کی یارسول اللہ !میں نے قطعاًایسی کوئی بات نہیں کی جس سے ان کو شکایت ہو، مال غنیمت سے جو اِن کا حصّہ تھا ، میں نے اِ ن میں تقسیم کردیا لیکن خمس کو محفوظ رکھا تاکہ اسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح مناسب خیال فرمائیں تقسیم کریں۔ ابنِ کثیر نے روایت کیا کہ حضرت علی المرتضیٰؓ کے بارے میں شکایت سُن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخِ انور کی رنگت متغیر ہوگئی ۔ چنانچہ حج سے فراغت کے بعد، رہبرِ نوعِ انسانی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اپنے جملہ جانثاروںکے ہمراہ مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ یہ کارروان ِ محبت جب غدیرِ خُم کے مقام پر پہنچا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کو یہاں ٹھہرنے کا حکم فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب کوئی اہم اعلان یا خطبہ ارشاد فرمانا ہوتا، تو موذن"اَ لصَّلوٰۃُ جَامِعَۃ"کے الفاظ بلند کرتا ، چنانچہ یہ آواز بلند ہوتے ہی ، تمام قبائل اور سارے قافلے مجتمع ہو کر ہمہ تن گوش ہوگئے ، تاکہ رخصت ہونے سے قبل ،اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے الوداعی اور اختتامی کلمات سُن سکیں۔ حضرت زید بن ارقمؓ فرماتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے نماز ادا کرنے کا حکم دیا پھر خطاب فرمایا ، وہ کہتے ہیں میں اپنی چادر کے ذریعے اس درخت پہ سایہ کیے ہوئے تھا، جس کے نیچے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے ،تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دھوپ نہ آئے ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات کو نہیں جانتے ؟کیا تم اس بات کی شہادت نہیں دیتے؟ کہ میں ہر مومن سے اس کی جان سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ سب نے عرض کی، حضور نے بجا فرمایا ۔ اور جب سب نے ارشاد نبو ت کی تائید کردی، تو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ کُنْتُ مَوْلَا ہُ فَاِنَّ عَلِیًّا مَوْلَا ہُ اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَا لَا ہُ وَ عَادِ ، مَنْ عَادَاہُ۔ " جس کا میں مدد گار اور دوست ہوں علی مرتضیٰ بھی اس کے مدد گار اور دوست ہیں۔ اے اللہ !جو ان کو دوست بناتا ہے اس کو تو بھی اپنا دوست بنا اور جو ان سے عداوت کرتا ہے ان سے تو بھی عداوت کر۔"